امن و امان پیار کی سوغات چاہئے

امن و امان پیار کی سوغات چاہئے
خوابوں کو نیند نیند کو بھی رات چاہئے


وہ داؤ آزمانے کو تیار ہیں بہت
ان کو خبر نہیں کہ ہمیں مات چاہئے


شکوہ اگر نہ ہو تو کہاں ان سے بات ہو
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئے


آنکھوں میں رتجگا ہے اٹھانے کو کوئی خواب
تعبیر کو تو اشکوں کی برسات چاہئے


خوں رنگ ہوئے شام و سحر بے خبر رہے
معافی نہیں تلافئ مافات چاہئے


پتھر کا شہر ہے تو ہے مردہ دلی بھی عام
سانسوں کے زیر و بم کو نباتات چاہئے


دستار سے الجھ کے گریں خواہشیں تمام
دل کی خلش کو کنج مکافات چاہیے