الم کی دھوپ میں احباب کام آیا نہیں کرتے

الم کی دھوپ میں احباب کام آیا نہیں کرتے
یہ وہ اڑتے ہوئے بادل ہیں جو سایا نہیں کرتے


جگر شق ہو مگر لب پر فغاں لایا نہیں کرتے
شراب غم جو پیتے ہیں وہ لہرایا نہیں کرتے


سہے گا کون پھولوں کے سوا جور خزاں آخر
بہار حسن پر کانٹے تو اترایا نہیں کرتے


نہیں مانوس لب جن سے کچھ ایسی بھی ہیں فریادیں
کچھ آنسو ہیں جو پلکوں پر نظر آیا نہیں کرتے