ایسا دکھا ہے ہم کو نظارہ کئی دفعہ
ایسا دکھا ہے ہم کو نظارہ کئی دفعہ
اس نے کیا ہے ہم سے کنارہ کئی دفعہ
ہر بار مشکلوں نے ستایا مجھے مگر
ماں نے دیا ہے مجھ کو سہارا کئی دفعہ
ایک بار مار دیتے تو قصہ تمام تھا
پر اس نے مجھ کو ہجر میں مارا کئی دفعہ
اک بار بھی پلٹ کے نہ دیکھا مری طرف
چلا کے ہم نے ان کو پکارا کئی دفعہ
اک بار دیکھنے سے کہاں بھر رہا ہے دل
ان سے کہو کہ دیکھیں دوبارہ کئی دفعہ
آنسو فراق درد جگر بے قراریاں
ان کے لیے کیے ہیں گوارا کئی دفعہ
حیدرؔ کی زندگی کو میسر سحر نہیں
ہونے کو ہو رہا ہے سویرا کئی دفعہ