اے ستم گار اے ہوا صورت

اے ستم گار اے ہوا صورت
گاہے گاہے ہمیں دکھا صورت


کوئی صورت نہیں ہے اب ممکن
ہے یہی ایک ممکنہ صورت


جان میں جان آئی مدت بعد
جب نظر آئی آشنا صورت


گفتگو غیر سے رہی اس کی
میں فقط دیکھتا رہا صورت


ذہن و دل میں سمائے گی کیسے
یہ تصور سے ماورا صورت


پارکوں میں دکھائی دیتی ہے
ایک سے ایک دل ربا صورت


دیکھ لیتا ہے آدمی سب کچھ
یاد ہوتی ہے آئنہ صورت


دل میں بھرتی ہے وسوسے نامیؔ
یہ تمہاری خفا خفا صورت