اے درد دل میں رہ کر دل ہی کا راز ہو جا
اے درد دل میں رہ کر دل ہی کا راز ہو جا
بیمار غم کا اپنے خود چارہ ساز ہو جا
اے جذب دل سراپا سوز و گداز ہو جا
دنیائے رنگ و بو میں دنیائے راز ہو جا
ہاں ہاں بڑھا دے مدت پابندیٔ جنوں کی
زلف دراز جاناں عمر دراز ہو جا
ہر ذرۂ حقیقت یہ دے رہا صدا ہے
پہلے رہ طلب میں خاک مجاز ہو جا
سر نامۂ عدم ہے عنوان زندگانی
اے امتیاز ہستی تفسیر راز ہو جا
اے بے خبر گزر جا ذوق نظر کی حد سے
جلووں میں اس کے گھر کر جلوہ طراز ہو جا
اے بندۂ طریقت آداب زندگی سن
محو سجود ہو کر جان نماز ہو جا
خرقہ شراب سے تر دستار مے سے رنگیں
اے شیخ پاک دامن یوں پاکباز ہو جا
تو راز داں ہے دل کا دل راز دار الفت
یا سرفراز کر دے یا سرفراز ہو جا
تو رونق حرم ہے یا بت کدہ کی زینت
خود امتیاز بن کر اک امتیاز ہو جا
جانا ہے جب مقرر دار فنا سے افقرؔ
راہ وفا میں مٹ کر خاک حجاز ہو جا