افسانہ:شطرنج کے کھلاڑی، تیسری قسط

بیگم صاحبہ کہتیں  کہ " مجھے تو یہ کھیل خودایک آنکھ نہیں بھاتا، پر کیا کروں ،میراکیا بس ہے؟"

محلہ میں دو چار بڑے بوڑھے تھے وہ طرح طرح کی بدگمانیاں کرنے لگے۔ "اب خیریت نہیں ۔ ہمارے رئیسوں کا یہ حال ہے تو ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ یہ سلطنت شطرنج کے ہاتھوں تباہ ہوگی۔ لچھن بُرے ہیں۔"

ملک میں واویلا مچا ہواتھا۔ رعایا دن دھاڑے لٹتی تھی۔ پر کوئی اس کی فریاد سننے والا نہ تھا۔ دیہاتوں کی ساری دولت لکھنؤ میں کھچی چلی آتی تھی اور یہاں سامانِ عیش کے بہم پہنچانے میں صرف ہوجاتی تھی۔ بھانڈ ،نقال، کتھک  کا زور تھا ۔ ارباب نشاط کی گرم بازاری تھی۔ ساقیوں کی دکانوں پر اشرفیاں برستی تھیں۔ رئیس زادے ایک ایک دم کی ایک ایک اشرفی پھینک دیتے تھے۔ مصارف کا یہ حال اور انگریزی کمپنی کا قرضہ روز بروز بڑھتا جاتا تھا ۔اس کی ادائیگی کی کسی کو فکر نہ تھی۔ یہاں تک کہ سالانہ خراج بھی ادا نہ ہوسکتا تھا۔ ریزیڈنٹ باربار تاکیدی خطوط لکھتا۔ دھمکیاں دیتا، مگر یہاں لوگوں پر نفس پروری کا نشہ سوار تھا ، کسی کے کان پر جوں نہ رینگتی تھی۔

خیر میر صاحب کے دیوان خانے میں شطرنج ہوتے کئی مہینے گزرگئے ۔نت نئے نقشے حل کیے جاتے، نئے نئے قلعے تعمیر ہوتے اور مسمار کیے جاتے، کبھی کبھی کھیلتے کھیلتے آپس میں جھڑپ ہوجاتی، تُو تُو میں میں کی نوبت پہنچ جاتی۔ پریہ شکر رنجیاں بہت جلد رفع ہوجاتی تھیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مرزاجی روٹھ کراپنے گھر چلے جاتے ۔ میر صاحب بساط اٹھاکراپنے گھر میں آبیٹھتے اور قسمیں کھاتے کہ اب شطرنج کے نزدیک نہ جائیں گے۔ مگر صبح ہوتے ہی دونوں دوست پھر مل بیٹھتے، نیند ساری بدمزگیوں کو دور کردیتی تھی۔

ایک دن دونوں احباب بیٹھے شطرنج کے دلدل میں غوطے کھارہے تھے کہ شاہی رسالہ کا ایک سوار وردی پہنے اسلحہ سے لیس میر صاحب کا نام پوچھتا آپہنچا ۔ میر صاحب کے حواس اڑے۔ اوسان خطا ہو گئے۔ خدا جانے کیا بلا سر پر آئی۔ گھر کے دروازے بند کرلیے۔ اور نوکروں سے کہا۔ کہہ دو میر صاحب  گھر میں نہیں ہیں۔

سوار نے کہا،  گھر میں نہیں ہیں تو کہاں ہیں؟  کہیں چھپے بیٹھے ہوں گے۔
خدمت گار میں یہ نہیں جانتا گھر میں سے یہی جواب ملا ہے۔  کیا کام ہے؟

سوار بولا: " کام تجھے کیا بتاؤں، حضور میں طلبی ہے۔ شاید فوج کے لیے کچھ سپاہی مانگے گئے ہیں۔میر صاحب  جاگیردار ہیں کہ مذاق ہے۔"
خدمت گار: " اچھا تشریف لے جا ئیے۔ کہہ دیا جائے گا۔"

سوار:" کہنے سننے کی بات نہیں۔ میں کل پھر آؤں گا اور تلاش کرکے لے جاؤں گا اپنے ہمراہ حاضرکرنے کا حکم ہوا ہے۔"
سوار تو چلاگیا۔میر صاحب کی روح فنا ہوگئی۔ کانپتے ہوئے مرزاجی سے بولے :"اب کیا ہوگا۔"

مرزا:" بڑی مصیبت ہے، کہیں میری طلبی بھی نہ ہو جائے ۔"
میر:"کمبخت کل پھر آنے کو کہہ گیا ہے۔"

مرزا:"قہر آسمانی ہے اور کیا۔  کہِیں سپاہیوں کی مانگ ہو تو بن موت مرے۔ یہاں تو جنگ کا نام سنتے ہی تپ چڑھ آتی ہے۔"
میر:" یہاں تو آج سے دانہ پانی حرام سمجھئے۔"

مرزا:" بس یہی تدبیر ہے کہ اس سے ملیے ہی نہیں، دونوں آدمی غائب ہوجائیں۔ سارا شہر چھانتا پھرے۔ کل سے گومتی پار کسی ویرانے میں نقشہ جمے۔ وہاں کیسے خبر ہوگی۔ حضرت اپنا سا منہ لے کر لوٹ جائیں گے"۔

میر:" بس بس آپ کو خوب سوجھی۔ واللہ کل سے گومتی پار کی ٹھہرے۔"
ادھر بیگم صاحبہ سوار سے کہہ رہی تھیں :"تم نے خوب بہروپ بھرا۔"

اس نے جواب دیا:" ایسے گاؤدیوں کو تو چٹکیوں پر نچاتا ہوں۔ اس کی ساری نقل اور ہمت تو شطرنج نے چرلی۔ اب دیکھ لینا جو کبھی بھول کر بھی گھر رہے صبح کا گیا پھر رات کو آئے گا۔"

اس دن سے دونوں دوست منہ اندھیرے گھر سے نکل کھڑے ہوتے   اور بغل میں ایک چھوٹی سی دری دبائے، ڈبّے میں گلوریاں بھرے، گومتی پار ایک پرانی ویران مسجد میں جا بیٹھتے جو شاید عہد مغلیہ کی یادگار تھی۔ راستہ میں تمباکو، مدرکالے لیتے اور مسجدمیں پہنچ کر ،  دری بچھا کر حقّہ بھر کر بساط پر جا بیٹھتے۔ پھر انھیں دین دنیا کی فکر نہ رہتی تھی۔" کشت۔  شہ۔ پیٹ لیا۔" ان الفاظ کے سوا ،ان کے منہ سے اور کوئی کلمہ نہ نکلتا تھا۔ کوئی چلہ کش بھی اتنے استغراق کی حالت میں نہ بیٹھتا تھا۔ دوپہر کو جب بھوک معلوم ہوتی تو دونوں حضرت گلیوں میں ہوتے ہوئے کسی نانبائی کی دکان پر کھانا کھا لیتے اور چلم حقّہ پی کرپھر شطرنج بازی۔ کبھی کبھی تو انھیں کھانے کی سدھ بھی  نہ رہتی تھی۔

ادھر ملک میں سیاسی پیچیدگیاں روز بروز پیچیدہ ہوتی جاتی تھیں۔ کمپنی کی فوجیں لکھنؤ کی طرف بڑھی چلی آتی تھیں۔ شہر میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ لوگ اپنے اپنے بال بچوں کولے کر دیہاتوں میں بھاگے جارہے تھے۔ پر ہمارے دونوں شطرنج باز دوستوں کوغم  و اندوہ ، پریشانی و پشیمانی سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ وہ گھر سے چلتے تو گلیوں میں ہوجاتے۔ کہیں کسی کی نگاہ نہ  پڑجائے۔ محلے والوں کو بھی ان کی صورت نہ دکھائی دیتی تھی۔ یہاں تک کہ انگریزی فوجیں لکھنؤ کے قریب پہنچ گئیں۔

ایک دن دونوں احباب بیٹھے بازی کھیل رہے تھے۔ میر صاحب کی بازی کچھ کمزور تھی۔ مرزا صاحب انھیں کشت پرکشت دے رہے تھے کہ دفعتاً کمپنی کی فوج سڑک پر سے آتی ہوئی دکھائی دی۔ کمپنی نے لکھنؤ پر تصرف کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ قرض کی  مد میں سلطنت ہضم کر لینا چاہتی تھی۔ وہی مہاجنی چال چلی۔ جس سے آج  دنیا کی ساری کمزور قومیں پابہ زنجیر ہورہی ہیں۔

میر صاحب :"انگریزی فوجیں آرہی ہیں۔"
مرزا :"آنے دیجئے۔ کشت بچائیے۔ یہ کشت۔"

میر:" ذرا دیکھنا چاہیے۔ آڑسے دیکھیں کیسے قوی ہیکل جوان ہیں دیکھ کر سینہ تھر اتا ہے۔"
مرزا:" دیکھ لیجیے گا  ، کیا جلدی ہے پھر کشت۔"

میر:" توپ خانہ بھی ہے کوئی پانچ ہزارآدمی ہوں گے۔ سرخ چہرہ جیسے لال بندر۔"
مرزا:" جناب حیلے نہ کیجئے۔ یہ کشت۔"

میر:" آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔ خیال تو کیجئے۔ شہر کا محاصرہ ہوگیا تو گھر کیسے چلیں گے۔"
مرزا:" جب گھر چلنے کا وقت آئے گا۔ تو دیکھی جائے گی۔ یہ کشت اور یہ  مات۔"

فوج نکل گئی:" یاروں نے دوسری بازی بچھا دی۔ مرزا جی بولے آج کھانے کی کیسی رہے گی۔"
میر:" آج روزہ ہے۔ کیا آپ کو زیادہ بھوک لگی ہے؟"

مرزا:" جی نہیں۔ شہر میں نامعلوم کیا ہورہا ہوگا۔"
میر:" شہر میں کچھ نہیں ہورہا ہوگا۔ لوگ کھانے سے فارغ ہوکر آرام کررہے ہوں گے۔
حضورجانِ عالم بھی استراحت فرماتے ہوں گے یا شاید ساغر کا دور چل رہا ہوگا۔"

متعلقہ عنوانات