افسانہ:شطرنج کے کھلاڑی، آخری قسط

اب کے دونوں دوست کھیلنے بیٹھے تو تین بج گئے ۔اب کی بار  مرزا جی کی بازی کمزور تھی۔

 اسی اثنامیں فوج کی واپسی کی آہٹ ملی۔ نواب واجد علی شاہ معزول کردیے گئے تھے۔ او ر فوج انھیں گرفتار کیے، لیے جاتی تھی۔ شہر میں کوئی ہنگامہ نہ ہوا۔ نہ کشت و  خون ،   یہاں تک کہ کسی جاں باز نے ایک قطرہ خون بھی نہ بہایا۔ نواب گھرسے اس طرح رخصت ہوئے  جیسے لڑکی روتی پیٹتی سسرال جاتی  ہے۔ بیگمات روئیں۔ نواب زادے، مامائیں،  مغلانیاں روئیں اور بس سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔

ازل سے کسی بادشاہ کی معزولی اتنی صلح آمیز، اتنی بے ضررنہ ہوئی ہوگی۔ کم ازکم تاریخ میں اس کی نظیر نہیں۔ یہ وہ اہنسا  تو ہر گز نہ تھی،  جس پر ملائک خوش ہوتے ہیں۔ یہ وہ پست ہمتی، وہ نامردی تھی جس پر دیویاں روتی ہیں۔ لکھنؤکا فرماں روا قیدی بنا چلا جاتاتھا اور لکھنؤ عیش کی نیند میں مست تھا۔ یہ سیاسی زوال کی انتہائی حد تھی۔

مرزا نے کہا: "حضور عالی کو ظالموں نے قید کرلیا ہے۔"
میر:" ہوگا۔ آپ کوئی قاضی ہیں ؟یہ لیجیے شہ۔"

مرزا:" حضرت ذرا ٹھہرئیے۔ اس وقت بازی کی طرف طبیعت نہیں مائل ہوتی۔
حضور عالی خوں کے آنسو روتے جاتے ہوں گے۔ لکھنؤ  کا چراغ آج گل ہوگیا۔"

میر:" رویا ہی جانا  چاہئے۔ یہ عیش قید فرنگ میں کہاں میسر۔ یہ شہ۔"
مرزا:" کسی کے دن ہمیشہ برابر نہیں جاتے۔  کتنی سخت مصیبت  ہے یہ  بلائے آسمانی۔"

میر:" ہاں یہ تو  ہے ہی۔ پھر کشت ،بس دوسری کشت میں مات ہے۔ بچ نہیں سکتے۔"
مرزا:" آپ بڑے بے درد ہیں۔ واللہ ایسا حادثۂ جانکاہ دیکھ کر آپ کو صدمہ نہیں ہوتا۔ ہائے حضور جان عالم کے بعد اب کمال کا کوئی قدر دا ن نہ رہا۔ لکھنؤ ویران ہوگیا۔"
میر:" پہلے اپنے بادشاہ کی جان بچائیے پھر حضور پُر نور کا ماتم کیجئے۔ یہ کشت اور مات، لانا ہاتھ۔"

نواب کو لیے ہوئے فوج سامنے سے نکل گئی۔ ان کے جاتے ہی مرزاجی نے نئی بازی بچھادی۔ ہار کی چوٹ بُری ہوتی ہے۔ میر صاحب نے کہا:" آئیے نواب صاحب کی حالتِ زار پر ایک مرثیہ کہہ ڈالیں۔ "

لیکن مرزاجی کی وفاداری اور اطاعت شعاری اپنی ہارکے ساتھ غائب ہوگئی تھی۔ وہ شکست کا انتقام لینے کے لیے بے صبر ہورہے تھے۔

شام ہوگئی۔ مسجد کے کھنڈر میں چمگاڈروں نے اذان دینا شروع کردی۔  ابابیلیں اپنے اپنے گھونسلوں سے چمٹ کر نماز مغرب ادا کرنے لگیں۔ پردونوں کھلاڑی بازی پر ڈٹے ہوئے تھے۔ گویا دو  خون کے پیاسے  سورما  موت کی بازی کھیل رہے ہوں۔ مرزا متواتر تین بازیاں ہار چکے تھے ۔ اب چوتھی بازی کا بھی رنگ اچھا نہ تھا وہ بار بار جیتنے کا مستقل ارادہ کرکے خوب سنبھل کر طبیعت پر زور دے دے کر کھیلتے تھے لیکن ایک نہ ایک چال ایسی خراب پڑجاتی تھی کہ ساری بازی بگڑجاتی ۔ادھر میر صاحب غزلیں پڑھتے تھے۔

ٹھمریاں گاتے تھے چٹکیاں لیتے تھے۔ آوازیں کستے تھے، ضلع اورجگت میں کمال دکھاتے تھے۔  ایسے خوش تھے کہ گویا کوئی دفینہ ہاتھ آگیا ہے۔

مرزا صاحب ان کی یہ خوش فہمیاں سن سن کر جھنجلاتے تھے اور بار بار تیور چڑھاکر کہتے:" آپ چال نہ تبدیل کِیا کیجئے۔ یہ کیا کہ چال چلے اور فوراًبدل دی۔ جوکچھ کرناہو ایک بار خوب غور کرکے کیجئے۔ جناب آپ مہرے پر انگلی کیوں رکھے رہتے ہیں۔ مہرے کو بے لاگ چھوڑدیا کیجئے۔ جب تک چال کا فیصلہ نہ ہوجائے مہرے کو ہاتھ نہ لگایا کیجئے۔ حضرت آپ ایک چال آدھ آدھ گھنٹے میں کیوں چلتے ہیں۔ اس کی سند نہیں جس کی ایک چال میں پانچ منٹ سے زیادہ لگے۔ اس کی مات سمجھی جائے۔ پھر آپ نے چال بدلی ۔مہرہ وہیں رکھ دیجئے۔"

میر صاحب کا فرزین پٹاجاتا تھا۔ بولے:" میں نے چال چلی کب تھی؟"
مرزا:" آپ کی چال ہوچکی ہے۔ خیریت اس میں ہے کہ مہرہ اسی گھر میں رکھ دیجئے۔"

میر:" اس گھر میں کیوں رکھوں؟ میں نے مہرے کو ہاتھ سے چھوا کب تھا؟"
مرزا:" آپ قیامت تک مہرے کو نہ چھوئیں تو کیا چال ہی نہ ہوگی۔ فرزین پٹتے دیکھا تو دھاندلی کرنے لگے۔"
میر:" دھاندلی آپ کرتے ہیں۔ ہار جیت تقدیر سے ہوتی ہے۔ دھاندلی کرنے سے  کبھی کوئی نہیں جیتا۔"

مرزا:"یہ بازی آپ کی مات ہوگی۔"
میر:"میری مات کیوں ہونے لگی؟"

مرزا:" تو آپ مہرہ اس گھر میں رکھ دیجئے جہاں پہلے رکھا تھا۔"
میر:" وہاں کیوں رکھوں۔ نہیں رکھتا۔"

مرزا:" آپ کو رکھنا پڑے گا۔"
میر:" ہر گز نہیں۔"
مرزا:" رکھیں گے تو آپ کے فرشتے بھی۔ آپ کی حقیقت ہی کیا ہے۔"

بات بڑھ گئی ۔دونوں اپنے ٹیک کے دھنی تھے۔ نہ یہ دبتا تھا نہ وہ ۔ تکرار میں لا محالہ غیر متعلق باتیں ہونے لگتی ہیں جن کا منشا ذلیل اور خفیف کرناہوتا ہے ۔ مرزاجی نے فرمایا :"اگر خاندان میں کسی نے شطرنج کھیلا ہوتا تو آپ آئین اور قاعدے سے واقف ہوتے۔ وہ ہمیشہ گھاس چھیلا کیے۔ آپ کیا کھاکر شطرنج کھیلیے گا۔ ریاست شے دیگر ہے۔ جاگیر مل جانے سے کوئی رئیس نہیں ہوجاتا۔"

میر:" گھاس آپ کے ابّاجان چھیلتے ہوں گے۔ یہاں تو شطرنج کھیلتے پیڑھیاں اور پشتیں گزر گئیں۔"
مرزا:" اجی جائیے۔ نواب غازی الدین کے یہاں باورچی گیری کرتے کرتے عمر گزر گئی۔ اس طفیل میں جاگیر پا گئے۔ آج رئیس بننے کا شوق چڑھ آیا ہے۔ رئیس بننادل لگی نہیں ہے۔"

میر:" کیوں اپنے بزرگوں کے منہ کالک لگارہے ہو۔ وہی باورچی رہے ہوں گے۔ ہمارے بزرگ تو نواب کے دسترخوان پر بیٹھتے تھے۔ ہم نوالہ وہم پیالہ تھے۔"
مرزا:" بے حیاؤں کو تو  شرم بھی نہیں آتی۔"

میر:" زبان سنبھالیے۔ ورنہ بُرا ہوگا۔ ایسی باتیں سننے کی عادی نہیں ہیں کسی نے آنکھ دکھائی اور ہم نے دیا تلا ہوا ہاتھ۔"

 بھنڈار کھل گئے۔
مرزا:" آپ ہمارے حوصلے دیکھیں گے؟  تو سنبھل جائیے۔ تقدیر آزمائی ہوجائے ،ادھر یا ادھر۔"
میر:" ہاں آجاؤ۔ تم سے دبتا کون ہے؟"

دونوں دوستوں نے کمر سے تلواریں نکالیں۔ ان دنوں ادنیٰ و  اعلیٰ سبھی، کٹاری ، خنجر، تلوار ، شیر پنجہ  وغیرہ باندھتے تھے۔ دونوں عیش کے بندے تھے، مگر بے غیرت نہ تھے۔ قومی دلیری ان میں غقا تھی،  مگر ذاتی دلیری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کے سیاسی جذبات فنا ہوگئے تھے۔ بادشاہ کے لیے ،سلطنت کے لیے،  قوم کے لیے کیوں مریں۔ کیوں کر اپنی میٹھی نیند میں خلل ڈالیں۔ مگر انفرادی جذبات میں مطلق خوف نہ تھا ، بلکہ وہ قوی  تر ہوگئے تھے۔ دونوں ہی  پینترے  بازی، لکڑی اور گتکہ کھیلے ہوئے تھے۔

ادھر ان کی تلواریں چمکیں۔  لوہے سے لوہا ٹکرانے کی آؤاز سنّاٹے میں دور تک گونج گئی ۔ دونوں نے پینترے بدل کر خوب وار کیے اور  دونوں ہی زخم کھا کے گر پڑے۔ دونوں نے وہیں تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ اپنے بادشاہ کے لیے  ، اپنی ریاست کے لیے ، اپنی قوم کے لیے ، اپنی ملت و عوام کے لیے جن کی آنکھوں سے ایک بوند آنسو کی نہ گری،  ان ہی دونوں آدمیوں نے شطرنج کے ایک  وزیر کے لیے اپنی گردنیں کٹادیں۔

اندھیرا ہوگیا تھا۔ بازی بچھی ہوئی تھی۔ دونوں بادشاہ اپنے اپنے تخت پر رونق افروز تھے۔ ان پر حسرت چھائی ہوئی تھی۔ گویا مقتولین کی موت کا ماتم کررہے تھے۔

چاروں طرف سنّاٹے کا عالم تھا۔ کھنڈر کی پوشیدہ دیواریں اور خستہ حال کنگرے اور سر  بہ سجود مینار ان لاشوں کو دیکھتے تھے اور انسانی زندگی کی بے ثباتی پر افسوس کرتے تھے۔ جس میں سنگ وخشت کا ثبات بھی نہیں۔

متعلقہ عنوانات