افسانہ: کفن، آخری قسط

بازار میں پہنچ کر گھیسو بولا، ’’لکڑی تو اسے جلانے بھر کی مل گئی ہے، کیوں مادھو!!!‘‘

مادھو بولا، ’’ہاں لکڑی تو بہت ہے اب کفن چاہئے۔‘‘

’’تو کوئی ہلکا سا کفن لے لیں۔ ‘‘

’’ہاں اور کیا! لاش اٹھتے اٹھتے رات ہو جائے گی ۔رات کو کپھن کون دیکھتا ہے۔‘‘

’’کیسا بُرا روا ج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا نہ ملے، اسے مرنے پر نیا کپھن چاہئے۔ ‘‘

’’کپھن کا کیا ہے ، لاش کےساتھ جل ہی تو جاتا ہے۔ ‘‘

’’اور کیا رکھا رہتا ہے؟  یہی پانچ روپے پہلے ملتے تو کچھ دوا دارو کرتے۔‘‘

دونوں ایک دوسرے کے دل کا ماجرا معنوی طور پر سمجھ رہے تھے۔ بازار میں ادھر ادھر گھومتے رہے۔ یہاں تک کہ شام ہو گئی۔ دونوں اتفاق سے یا عمَداً ایک شراب خانے کے سامنے آ  پہنچے اور گویا کسی طے شدہ فیصلے کے مطابق اندر گئے۔ وہاں ذرا دیر تک دونوں تذبذب کی حالت میں کھڑے رہے۔ پھر گھیسو نے ایک بوتل شراب لی۔ کچھ گزک لی اور دونوں برآمدے میں بیٹھ کر پینے لگے۔ کئی کُجّیاں   پینے کے بعد دونوں سرور میں آ گئے۔

گھیسو بولا، ’’کفن لگانے سے کیا ملتا۔ آکھر جل ہی تو جاتا۔ کچھ بہو کے ساتھ تو نہ جاتا۔‘‘

مادھو آسمان کی طرف دیکھ کر بولا، گویا فرشتوں کو اپنی معصومیت کا یقین دلا رہا ہو۔ ’’دنیا کا دستور ہے۔ یہی لوگ برہمنوں کو ہجاروں روپے کیوں دیتے ہیں۔ کون دیکھتا ہے۔ پرلوک میں ملتا ہے یا نہیں۔‘‘

’’بڑے آدمیوں کے پاس دھن ہے پھونکیں، ہمارے پاس پھونکنے کو کیا ہے۔ ‘‘

’’لیکن لوگوں کو کیا جواب دو گے؟ لو گ پوچھیں گے کہ کپھن کہاں ہے؟‘‘

گھیسو ہنسا، ’’کہہ دیں گے کہ روپے کمر سے کھسک گئے بہت ڈھونڈا۔ ملے نہیں۔‘‘

مادھو بھی ہنسا۔ اس غیر متوقع خوش نصیبی پر قدرت کو اس طرح شکست دینے پر بولا، ’’بڑی اچھی تھی بیچاری مری بھی تو خوب کھلا پلا کر۔‘‘ آدھی بوتل سے زیادہ ختم ہو گئی۔ گھیسو نے دو سیر پوریاں منگوائیں، گوشت اور سالن اور چٹ پٹی کلیجیاں اور تلی ہوئی مچھلیاں۔ شراب خانے کے سامنے دکان تھی۔مادھو لپک کر دو پتلوں میں ساری چیزیں لے آیا۔ پورے ڈیڑھ روپے خرچ ہو گئے۔ صرف تھوڑے سے پیسے بچ رہے۔

دونوں اس وقت اس شان سے بیٹھے ہوئے پوریاں کھا رہے تھے جیسے جنگل میں کوئی شیر اپنا شکار اڑا رہا ہو، نہ جواب دہی کا خوف تھا نہ بدنامی کی فکر۔ ضعف کے ان مراحل کو انہوں نے بہت پہلے طے کر لیا تھا۔ گھیسو فلسفیانہ انداز سے بولا، ’’ہماری آتما پرسن ہو رہی ہے تو کیا اسے پُن نہ ہو گا۔‘‘

مادھو نے سرِ عقیدت جھکا کر تصدیق کی، ’’جرور   جرور ہو گا۔ بھگوان تم انتر یامی (علیم) ہو۔ اسے بیکنٹھ لے جانا۔ ہم دونوں ہردے سے اسے دعا دے رہے ہیں۔ آج جو بھوجن ملا وہ کبھی عمر بھر نہ ملا تھا۔‘‘ ایک لمحہ کے بعد مادھو کے دل میں ایک تشویش پیدا ہوئی۔ بولا، ’’کیوں  ابا ،  ہم لوگ بھی تو وہاں ایک نہ ایک دن جائیں گے ہی۔‘‘ گھیسو نے اس طفلانہ سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ مادھو کی طرف پُر ملامت انداز سے دیکھا۔

’’جو وہ وہاں ہم لوگوں سے پوچھے گی کہ تم نے ہمیں کفن کیوں نہ دیا، تو کیا کہیں گے؟ ‘‘

’’کہیں گے تمہارا سر۔ ‘‘

’’پوچھے گی تو جرور۔ ‘‘

’’تُو کیسے جانتا ہے اسے کفن نہ ملے گا؟ مجھے گدھا سمجھتا ہے۔ میں ساٹھ سال دنیا میں کیا گھاس کھودتا رہا ہوں۔ اس کو کفن ملے گا اور اس سے بہت اچھا ملے گا، جو ہم دیتے۔‘‘

مادھو کو یقین نہ آیا، ’’بو لا کون دے گا؟ روپے تو تم نے چٹ کر دئے۔‘‘

گھیسو تیز ہو گیا، ’’میں کہتا ہوں اسے کفن ملے گا تو مانتا کیوں نہیں؟‘‘

’’کون دے گا، بتاتے کیوں نہیں؟ ‘‘

’’وہی لوگ دیں گے جنہوں نے اب کے دیا۔ ہاں وہ روپے ہمارے ہاتھ نہ آئیں گے اور اگر کسی طرح آ جائیں تو پھر ہم اس طرح بیٹھے پئیں گے اور کپھن تیسری بار ملے گا۔‘‘

جوں جوں اندھیرا بڑھتا تھا اور ستاروں کی چمک تیز ہوتی تھی، مے خانے کی رونق بھی بڑھتی جاتی تھی۔ کوئی گاتا تھا، کوئی بہکتا تھا، کوئی اپنے رفیق کے گلے لپٹا جاتا تھا، کوئی اپنے دوست کے منہ سے ساغر لگائے دیتا تھا۔ وہاں کی فضا میں سرور تھا، ہوا میں نشہ۔ کتنے تو چُلُّو میں ہی اُلُّو ہو جاتے ہیں۔ یہاں آتے تھے تو صرف خود فراموشی کا مزہ لینے کے لئے۔ شراب سے زیادہ یہاں کی ہوا  سے مسرور ہوتے تھے۔ زیست کی بلا یہاں کھینچ لاتی تھی اور کچھ دیر کے لئے وہ بھول جاتے تھے کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ ہیں یا زندہ در گور ہیں۔

اور یہ دونوں باپ بیٹے اب بھی مزے لے لے کے چسکیاں لے رہے تھے۔ سب کی نگاہیں ان کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ کتنے خوش نصیب ہیں دونوں، پوری بوتل بیچ میں ہے۔

کھانے سے فارغ ہو کر مادھو نے بچی ہوئی پوریوں کا پتل اٹھا کر ایک بھکاری کو دے دیا، جو کھڑا ان کی طرف گرسنہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور ’دینے‘ کے غرور اور مسرت اور ولولہ کا، اپنی زندگی میں پہلی بار احساس کیا۔

گھیسو نے کہا، ’’لے جا کھوب کھا اور اسیر باد دے۔‘‘ جس کی کمائی تھی وہ تو مر گئی مگر تیرا  اسیر باد اسے جرور پہنچ جائے گا ۔روئیں روئیں سے اسیر باد دے۔ بڑی گاڑھی کمائی کے پیسے ہیں۔‘‘

مادھو نے پھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، ’’وہ بیکنٹھ میں جائے گی۔ دادا  وہ تو بیکنٹھ کی رانی بنے گی۔‘‘

گھیسو کھڑا ہو گیا اور جیسے مسرت کی لہروں میں تیرتا ہوا بولا، ’’ہاں بیٹا بیکنٹھ میں نہ جائے گی تو کیا یہ موٹے موٹے لو گ جائیں گے، جو گریبوں کو دونوں ہاتھ سے لوٹتے ہیں اور اپنے پاپ کے دھونے کے لئے گنگا میں جاتے ہیں اور مندروں میں جل چڑھاتے ہیں۔‘‘

یہ خوش اعتقادی کا رنگ بھی بدلا۔تلوّن نشہ کی خاصیت ہے۔ یاس اور غم کا دورہ ہوا۔ مادھو بولا، ’’مگر داد ابیچاری نے جندگی میں بڑا دکھ بھوگا۔ مری بھی کتنا دکھ جھیل کر۔‘‘ وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر رونے لگا۔

گھیسو نے سمجھایا، ’’کیوں روتا ہے بیٹا! کھس ہو کہ وہ مایا جال سے مکت ہو گئی۔ جنجال سے چھوٹ گئی۔ بڑی بھاگوان تھی جو اتنی جلد مایا کے موہ کے بندھن توڑ دئے۔‘‘

اور دونوں وہیں کھڑے ہو کر گانے لگے۔۔۔

ٹھگنی کیوں نیناں جھمکا وے۔ ٹھگنی۔۔۔

سارا میخانہ محوِ تماشا تھا اور یہ دونوں مے کش ،مخمور، محویت کے عالم میں گائے جاتے تھے۔ پھر دونوں ناچنے لگے۔ اچھلے بھی، کودے بھی، گرے بھی، مٹکے بھی۔ بھاؤ بھی بتائے اور آخر نشے سے بد مست ہو کر وہیں گر پڑے۔

متعلقہ عنوانات