افسانہ: کفن، دوسری قسط

دونوں آلو نکال نکال کر جلتے جلتے کھانے لگے۔ کل سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔ اتنا صبر نہ تھا کہ انہیں ذرا  ٹھنڈا ہو جانے دیں۔ کئی بار دونوں کی زبانیں جل گئیں۔ چِھل جانے پر آلو  کا بیرونی حصہ تو زیادہ گرم نہ معلوم ہوتا تھا لیکن دانتوں کے تلے پڑتے ہی اندر کا حصہ زبان اور حلق اور تالو کو جلا دیتا تھا ۔ اور اس انگارے کو منہ میں رکھنے سے زیادہ خیریت اسی میں تھی کہ وہ اندر پہنچ جائے۔ وہاں اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی سامان تھے۔ اس لئے دونوں جلد جلد نگل جاتے تھے۔  حالانکہ اس کوشش میں ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔

 

گھیسو کو اس وقت ٹھا کر کی برات یاد آئی جس میں بیس سال پہلے وہ گیا تھا۔ اس دعوت میں اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی۔ وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی اور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی۔ وہ بولا، ’’وہ بھوج نہیں بھولتا۔ تب سے پھر اس طرح کا کھانا  اور پیٹ  بھر کر نہیں ملا۔ لڑکی والوں نے سب کو پوڑیاں کھلائی تھیں،  سب کو۔ چھوٹے بڑے سب نے پوڑیاں کھائیں اور اصلی گھی کی چٹنی، رائتہ، تین طرح کے سوکھے ساگ، ایک رسے دار ترکاری، دہی، چٹنی، مٹھائی ،اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا۔ کوئی روک نہیں تھی جو چیز چاہو مانگو اور جتنا چاہو کھاؤ۔ لوگوں نے ایسا کھایا، ایسا کھایا کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا، مگر پروسنے والے ہیں کہ سامنے گرم گول گول مہکتی ہوئی کچوریاں ڈال دیتے ہیں۔ منع کرتے ہیں۔ نہیں چاہئے مگر وہ ہیں کہ دیے جاتے ہیں اور جب سب نے منہ دھو لیا تو ایک ایک بڑا پان بھی ملا مگر مجھے پان لینے کی کہاں سدھ تھی۔ کھڑا نہ ہوا جاتا تھا۔ جھٹ پٹ جا کر اپنے کمبل پر لیٹ گیا۔ ایسا دریا دل تھا وہ ٹھا کر۔‘‘

مادھو نے ان تکلفات کا مزا لیتے ہوئے کہا، ’’اب ہمیں کوئی ایسا بھوج کھلاتا۔‘‘

’’اب کوئی کیا کھلائے گا؟ وہ جمانا دوسرا تھا۔ اب تو سب کو کپھایت سوجھتی ہے۔ سادی بیاہ میں مت کھرچ کرو، کریا کرم میں مت کھرچ کرو۔ پوچھو گریبوں کا مال بٹور بٹور کر کہاں رکھو گے۔ مگر بٹورنے میں تو کمی نہیں ہے۔ ہاں کھرچ میں کپھایت سوجھتی ہے۔‘‘

’’تم نے ایک بیس پوڑیاں کھائی ہوں گی۔ ‘‘

’’بیس سے جیادہ کھائی تھیں۔ ‘‘

’’میں پچاس کھا جاتا۔ ‘‘

’’پچاس سے کم میں نے بھی نہ کھائی ہو ں گی۔ مَیں اچھا پٹھا تھا۔ تُو اس کا آدھا بھی نہیں ہے۔‘‘

آلو کھا کر دونوں نے پانی پیا اور وہیں الاؤ کے سامنے اپنی دھوتیاں اوڑھ کر پاؤں پیٹ میں ڈال کر سو رہے جیسے دو بڑے بڑے اژدھا کنڈلیاں مارے پڑے ہوں اور بدھیا ابھی تک کراہ رہی تھی۔

۲

صبح کو مادھو نے کوٹھری میں جا کر دیکھا تو اس کی بیوی ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اس کے منہ پر مکھیاں بھنک رہی تھیں۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر ٹنگی ہوئی تھیں۔ سارا جسم خاک میں لت پت ہو رہا تھا۔ جب کہ بچہ تو پیدائش سے پہلے ہی  مر گیا تھا۔

مادھو بھاگا ہوا گھیسو کے پاس آیا اور پھر دونوں زور زور سے ہائے ہائے کرنے اور چھاتی پیٹنے لگے۔ پڑوس والوں نے یہ آہ و زاری سنی تو دوڑتے ہوئے آئے اور رسمِ قدیم کے مطابق غم زدوں کی تشفی کرنے لگے۔ مگر زیادہ رونے دھونے کا موقع نہ تھا ۔ کفن کی اور لکڑی کی فکر کرنا  تھی۔ گھر میں تو پیسہ اس طرح غائب تھا جیسے چیل کے گھونسلے میں ماس۔

باپ بیٹے روتے ہوئے گاؤں کے زمین داروں کے پاس گئے۔ وہ ان دونوں کی صورت سے نفرت کرتے تھے۔ کئی بار انہیں اپنے ہاتھوں پیٹ چکے تھے۔ چوری کی علت میں، وعدے پر کام نہ کرنے کی علت میں۔ پوچھا، ’’کیا ہے بے گھسوا۔ روتا کیوں ہے۔ اب تو تیری صورت ہی نظر نہیں آتی۔ اب معلوم ہوتا ہے تم اس گاؤں میں نہیں رہنا چاہتے۔‘‘

گھیسو نے زمین پر سر رکھ کر آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔، ’’سرکار بڑی بپت میں ہوں۔ مادھو کی گھر والی رات گُجَر گئی۔ دن بھر تڑپتی رہی سرکار۔ آدھی رات تک ہم دونوں اس کے سرہانے بیٹھے رہے۔ دوا   دارو جو کچھ ہو  سکا  ،سب کیا مگر وہ ہمیں دگا دے گئی۔ اب کوئی ایک روٹی دینے  والا نہیں رہا  مالک۔ تباہ ہو گئے۔ گھر اجڑ گیا۔ آپ کا گلام ہوں۔ اب آپ کے سوا اس کی مٹی کون پار لگائے گا۔ ہمارے ہاتھ میں جو کچھ تھا، وہ سب دوا دارو میں اٹھ گیا۔ سرکار ہی کی دیا ہو گی تو اس کی مٹی اٹھے گی۔ آپ کے سوا اور کس کے دوار پر جاؤں۔‘‘

زمین دار صاحب رحمدل آدمی تھے مگر گھیسو پر رحم کرنا کالے کمبل پر رنگ چڑھانا تھا۔ جی میں تو آیا کہہ دیں، ’’چل دور ہو یہاں سے ، لاش گھر میں رکھ کر سڑا۔ یوں تو بلانے سے بھی نہیں آتا۔ آج جب غرض پڑی تو آ کر خوشامد کر رہا ہے حرام خور کہیں کا۔ بد معاش۔‘‘ مگر یہ غصہ یا انتقام کا موقع نہیں تھا۔ طوعاً و کرہاً دو روپے نکال کر پھینک دئے مگر تشفی کا ایک کلمہ بھی منہ سے نہ نکالا۔ اس کی طرف تاکا تک نہیں۔ گویا سر کا بوجھ اتارا ہو۔

جب زمین دار صاحب نے دو روپے دئے تو گاؤں کے بنئے مہاجنوں کو انکار کی جرأت کیوں کر ہوتی۔ گھیسو زمین دار کے نام کا ڈھنڈورا پیٹنا جانتا تھا۔ کسی نے دو آنے دئے کسی نے چار آنے۔ ایک گھنٹے میں گھیسو کے پاس پانچ روپیہ کی معقول رقم جمع ہو گئی۔ کسی نے غلہ دے دیا، کسی نے لکڑی۔ اور دوپہر کو گھیسو اور مادھو بازار سے کفن لانے چلے اور لوگ بانس وانس کاٹنے لگے۔ گاؤں کی رقیق القلب عورتیں آ  آ کر لاش کو دیکھتی تھیں اور اس کی بے بسی پر دو بوند آنسو گرا کر چلی جاتی تھیں۔

متعلقہ عنوانات