افسانہ: کفن، پہلی قسط

جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی ، بے چاری  بدھیا ، درد سے تڑپ  رہی تھی اور رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دل خراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے تھے۔ جاڑوں کی رات تھی، فضا سناٹے میں غرق۔ سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا تھا۔

گھیسو نے کہا، ’’معلوم ہوتا ہے کہ زندہ  بچے گی نہیں۔ سار ا دن تڑپتے ہو گیا، جا دیکھ تو آ۔‘‘

مادھو درد ناک لہجے میں بولا، ’’مرنا ہی ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی۔ دیکھ کر کیا آؤں۔‘‘

’’تو بڑا بیدرد ہے بے! سال بھر جس کے ساتھ جندگانی کا سکھ بھوگا، اسی کے ساتھ اتنی بے وپھائی۔‘‘

’’تو مجھ سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا نہیں دیکھا جا تا۔ ‘‘

چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام۔ گھیسو ایک دن کام کرتا تو تین دن آرام، مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹے بھر کام کرتا تو گھنٹے بھر چلم پیتا۔ اس لئے اسے کوئی رکھتا ہی نہ تھا۔ گھر میں مٹھی بھر اناج بھی موجود ہو تو ان کے لئے کام  نہ کرنے کی قسَم تھی۔ جب دو ایک فاقے ہو جاتے تو گھیسو درختوں پر چڑھ کر لکڑی توڑ لاتا اور مادھو بازار سے بیچ لاتا۔ اور جب تک دو پیسے رہتے، دونوں ادھر ادھر مارے مارے پھرتے۔ جب فاقے کی نوبت آجاتی تو پھر لکڑیاں توڑتے یا کوئی مزدوری تلاش کرتے۔

گاؤں میں کام کی کمی نہ تھی۔ کاشت کاروں کا گاؤں تھا۔ محنتی آدمی کے لئے پچاس کام تھے مگر ان دونوں کو لوگ اسی وقت بلاتے جب دو آدمیوں سے ایک کا کام پا کر بھی قناعت کر  لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوتا۔ کاش دونوں سادھو ہوتے تو انہیں قناعت اور توکل کے لئے ضبطِ نفس کی مطلق ضرورت نہ ہوتی۔ یہ ان کی خلقی صفت تھی۔

عجیب زندگی تھی ان کی۔ گھر میں مٹی کے دو چار برتنوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں۔ پھٹے چیتھڑوں سے اپنی عریانی کو ڈھانکے ہوئے دنیا کی فکروں سے آزاد۔ قرض سے لدے ہوئے۔ گالیاں بھی کھاتے، مار بھی کھاتے مگر کوئی غم نہیں۔ مسکین اتنے کہ وصولی کی مطلق امید نہ ہونے پر لوگ انہیں کچھ نہ کچھ قرض دے دیتے تھے۔ مٹر یا آلو کی فصل میں کھیتوں سے مٹر یا آلو اکھاڑ لاتے اور بھون بھون کر کھاتے یا دس پانچ اوکھ توڑ لاتے اور رات کو چوستے۔

گھیسو نے اسی زاہدانہ انداز میں ساٹھ سال کی عمر کاٹ دی اور مادھو بھی سعادت مند بیٹے کی طرح باپ کے نقش قدم پر چل رہا تھا بلکہ اس کا نام اور بھی روشن کر رہا تھا۔ اس وقت بھی دونوں الاؤ کے سامنے بیٹھے ہوئے آلو بھون رہے تھے جو کسی کے کھیت سے کھود لائے تھے۔ گھیسو کی بیوی کا تو مدت ہوئی انتقال ہو گیا تھا۔ مادھو کی شادی پچھلے سال ہوئی تھی۔ جب سے یہ عورت آئی تھی اس نے اس خاندان میں تمدن کی بنیاد ڈالی تھی۔ پسائی کر کے گھاس چھیل کر وہ سیر بھر آٹے کا انتظام کر لیتی تھی اور ان دونوں بے غیرتوں کا دوزخ بھرتی رہتی تھی۔ جب سے وہ آئی یہ دونوں اور بھی آرام طلب اور آلسی ہو گئے تھے ۔ بلکہ کچھ اکڑنے بھی لگے تھے۔ کوئی کام کرنے کو بلاتا تو بے نیازی کی شان میں دوگنی مزدوری مانگتے۔ وہی عورت آج صبح سے دردِ  زہ  میں مر رہی تھی اور یہ دونوں شاید اسی انتظار میں تھے کہ وہ مر جائے تو آرام سے سوئیں۔

گھیسو نے آلو نکال کر چھیلتے ہوئے کہا، ’’جا کر دیکھ تو، کیا حالت ہے اس کی؟ چڑیل کا پھساد ہو گا اور کیا۔ یہاں تو اوجھا بھی ایک روپیہ مانگتا ہے۔ کس کے گھر سے آئے۔‘‘

مادھو کو اندیشہ تھا کہ وہ کوٹھری میں گیا تو گھیسو آلوؤں کا بڑا حصہ صاف کر دے گا۔ بولا، ’’مجھے وہاں ڈر لگتا ہے۔‘‘

’’ڈر کس بات کا ہے؟ ‘‘

’’میں تو یہاں ہوں ہی۔ ‘‘

’’تو تمہیں جا کر دیکھو نا۔ ‘‘

 

’’میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن تک اس کے پاس سے ہلا بھی نہیں اور پھر تیری جورو مجھ سے لجائے گی کہ نہیں؟ کبھی اس کا منہ نہیں دیکھا۔ آج اس کو تڑپتے ہوئے کیسے دیکھ لوں۔ اسے تن کی سدھ بھی تو نہ ہو گی۔ مجھے دیکھ لے گی تو کھل کر ہاتھ پاؤں بھی نہ پٹک سکے گی۔‘‘

’’میں سوچتا ہوں کہ کوئی بال بچہ ہو گیا تو کیا ہو گا۔ سونٹھ، گڑ، تیل، کچھ بھی تو نہیں ہے گھر میں۔‘‘

’’سب کچھ آ جائے گا۔ بھگوان بچہ دیں تو، جو لوگ ابھی ایک پیسہ نہیں دے رہے ہیں، وہی تب خود  بلا کر دیں گے۔ میرے نو لڑکے ہوئے، گھر میں کچھ بھی نہ تھا، مگر اس طرح ہر بار کام چل گیا۔‘‘

جس سماج میں رات دن محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے کہیں زیادہ فارغ  البال تھے، وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ ہم تو کہیں گے  کہ گھیسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرداز جماعت میں شامل ہو گیا تھا۔ ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کرتا۔ اس لئے جہاں اس کی جماعت کے اور لوگ گاؤں کے سرغنہ اور مکھیا بنے ہوئے تھے، اس پر سارا گاؤں انگشت نمائی کر رہا تھا ۔ پھر بھی اسے یہ تسکین تو تھی ہی کہ اگر وہ خستہ حال ہے تو کم سے کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنا پڑتی اور اس کی سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بےجا فائدہ تو نہیں اٹھاتے۔

متعلقہ عنوانات