افسانہ:شطرنج کے کھلاڑی، پہلی قسط

نواب واجد علی شاہ کا زمانہ تھا۔ لکھنؤ عیش و عشرت کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ چھوٹے ،بڑے، امیر  و  غریب سب رنگ رلیاں منارہے تھے ۔کہیں نشاط کی محفلیں آراستہ تھیں۔ کوئی افیون کی پینک کے مزے لیتا تھا ۔ زندگی کے ہر ایک شعبہ میں رندی ومستی کا زور تھا۔

 امور سیاست میں، شعر وسخن میں، طرز معاشرت میں، صنعت وحرفت میں، تجارت وتبادلہ میں سبھی جگہ نفس پرستی کی دہائی تھی۔ اراکین سلطنت  الگ  مے خواری کے غلام ہورہے تھے۔ شعرا   الگ اپنی  محبتوں اور نفرتوں  میں مست،  اہل حرفہ کلابتوں اور اچکن بنانے میں، اہلِ سیف تیتر بازی میں، اہل روزگار سرمہ و مسی، عطر و تیل کی خریدو فروخت کا دلدادہ ۔

غرض ساراملک نفس پروری کی بیڑیوں میں جکڑا ہواتھا۔ سب کی آنکھوں میں ساغر وجام کا نشہ چھایا ہواتھا۔

دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔  مغرب علم وحکمت کے کن میدانوں میں  کن ایجادوں میں مصروف ہے۔ بحر و برپر مغربی اقوام کس طرح حاوی ہوتی جاتی ہیں،  اس کی کسی کو خبرنہ تھی۔ بٹیرلڑرہے ہیں ۔ تیتروں میں پالیاں ہورہی ہیں ۔کہیں چوسرہورہی ہے۔ پوبارہ کا شور مچا ہوا ہے ۔کہیں شطرنج کے معرکے چھڑے ہوئے ہیں۔ فوجیں زیر و زبر ہورہی  ہیں۔ نواب کا حال اس سے بد تر تھا۔ ہاں گیتوں اور تالوں کی ایجاد ہوتی تھی۔

 

خط  اور خوش نویسی کے لیے نئے انداز  ،نئے نئے نسخے سوچے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ فقر ا خیرات کے پیسے پاتے تو روٹیاں خریدنے کی بجائے مدک اور چانڈوکے مزے لیتے تھے۔ رئیس زادے حاضری جوابی اوربزلہ سنجی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ارباب نشاط سے قلم بند کرتے تھے۔ فکر کو  جولاں، عقل کو رسا اور ذہن کو تیزکرنے کے لیے شطرنج کو واحد  نسخۂ کیمیا سمجھا جاتا تھا۔

اب بھی اس قوم کے لوگ کہیں کہیں موجود ہیں۔ جو اس دلیل کو بڑے شدومد  سے پیش کرتے ہیں کہ شطرنج سے دماغ تیز ہوتا ہے۔ اس لیے اگر مرزاسجّاد علی اور میر روشن  اپنی زندگی کا بیشتر حصّہ عقل کو تیز کرنے میں صرف کیا کرتے تھے  تو  کسی ذی فہم کو اعتراض کرنے کا موقع نہ تھا۔  ہاں  جہلا  انھیں  جو چاہیں،  سمجھیں۔

 دونوں صاحبوں کے پاس موروثی جاگیر یں تھیں۔ فکر معاش سے آزاد تھے۔ آخر اورکرتے ہی کیا۔ طلوح سحر ہوتے ہی دونوں صاحب ناشتہ کرکے بساط پر بیٹھ جاتے۔ مہر ے بچھالیتے اور عقل کو تیز کرنا شروع کردیتے تھے۔

 پھر انھیں خبر نہ ہوتی تھی  کہ کب دوپہر ہوئی،  کب سہ پہر اور کب شام۔ گھر سے باربار آدمی آکر کہتا تھا کہ کھانا تیار ہے ۔یہاں سے جواب ملتا تھاکہ تم چلو ہم آتے ہیں۔

دسترخوان بچھاؤ، مگر شطرنج کے سامنے قورمے اور پلاؤ کے مزے بھی پھیکے تھے۔ یہاں تک کہ باور چی مجبور ہوکر کھانا کمرے میں ہی رکھ جاتا تھا اور دونوں دوست دونوں کام ساتھ ساتھ کرکے اپنی باریک نظری کا ثبوت دیتے تھے۔ کبھی کبھی کھانا رکھا ہی رہ جاتا۔ اس کی یاد ہی نہ آتی تھی۔ مرزاسجّاد علی کے مکان میں کوئی بڑا بوڑھا نہ تھا ۔ اس لیے انہی کے دیوان خانے میں معر کہ آرائیاں ہوتی تھیں۔

مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مرزاکے گھر کے اورلوگ اس مشغلہ سے خوش تھے۔ہر گز نہیں۔ محلّہ کے گھر کے نوکر چاکروں میں، مہریوں ماماؤں میں بڑی حاسدانہ حرف گیریاں ہوتی رہتیں تھیں۔ بڑا منحوس کھیل ہے گھر کو تباہ کرکے چھوڑتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ کسی کو اس کی چاٹ پڑے۔ آدمی نہ دین کے کام کار ہتا ہے۔ نہ دنیا کے کام کا ۔ بس اسے دھوبی کا کتّا سمجھو ، جو گھر کا نہ گھاٹ کا۔  بُرا مرض ہے۔ ستم یہ تھا کہ بیگم صاحبہ بھی آئے دن اس مشغلہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی رہتی تھیں۔ حالانکہ انھیں اس کے مواقع مشکل سے ملتے۔

وہ سوتی ہی رہتی تھیں کہ ادھر بازی جم جاتی تھی۔ رات کو سوجاتی تھیں۔ تب کہیں مرزا جی گھر میں آتے تھے۔ ہاں جولا ہے کاغصّہ داڑھی پر اتاراکرتی تھیں۔ نوکروں کو جھڑکیاں دیا کرتیں ۔"کیا میاں نے پان مانگے ہیں؟ کہہ دو کہ  آ  کر لے جائیں۔ کیا پاؤں میں مہندی لگی ہوئی ہے۔ کیا کہا ابھی کھانے کی فرصت نہیں ہے؟ کھانے لے جاکر سر پر پٹک دو۔  کھائیں یا کتّوں کو کھلائیں ۔ یہاں ان کے انتظار میں کون بیٹھا رہے گا۔"

 مگر لطف یہ تھا کہ انھیں اپنے میاں سے اتنی شکایت نہ تھی ، جتنی میر صاحب سے  تھی۔ وہ میر صاحب کونکھٹو،  بگاڑو، ٹکڑے خور وغیرہ  جیسے ناموں سے یاد کیا کرتی تھیں۔ شاید مرزا جی بھی اپنی بریت کے اظہار میں سارا الزام میر صاحب ہی کے سر ڈال دیتے تھے۔

ایک دن بیگم صاحبہ کے سر میں درد ہونے لگا  تو ماما سے کہا۔ جاکر مرزا جی کو  بلا کر لا۔

کسی حکیم کے یہاں سے دوا لادیں۔ دوڑ جلدی کر سر پھٹا جاتاہے۔ ماما گئی تو مرزا جی نے کہا "چل ابھی آتے ہیں۔ "بیگم صاحبہ کو اتنی تاب کہاں کہ ان کے سر میں دردہوا ور میاں شطرنج کھیلنے میں مصروف ہوں۔ چہرہ سرخ ہوگیا اور ماما سے کہا :"جاکرکہہ  کہ ابھی چلیے ورنہ وہ خود حکیم صاحب کے پاس چلی جائیں گی۔ کچھ ان کے آنکھوں دیکھا راستہ نہیں ہے۔"

 مرزا جی بڑی دلچسپ بازی کھیل رہے تھے۔ دو ہی کشتوں میں میر صاحب کی مات ہوئی جاتی تھی۔ بولے :"کیا ایسا دم لبوں پر ہے۔ ذرا صبر نہیں آتا۔ حکیم صاحب چھومنتر کردیں گے کہ ان کے آتے ہی آتے دردِسر رفع ہوجائے گا۔"

میر صاحب نے فرمایا۔ "ارے جاکر سن ہی آئیے نہ۔ عورتیں نازک مزاج ہوتی ہی ہیں۔ "مرزاجی بولے :"ہاں کیوں نہ چلا جاؤں دوکشتوں میں میر صاحب کی مات ہوئی جاتی ہے۔"

میر صاحب بولے:" جی اس بھروسے نہ رہیے گا۔ وہ چال سوچی ہے کہ آپ کے مہرے دھرے کے دھرے رہ جائیں،  اور مات ہوجائے۔ لیکن آپ  جائیے سن آئیے ۔کیوں خواہ مخواہ ذرا سی بات کے لیے ان کا دل دکھائیے گا۔"

مرزاجی:" جی چاہتاہے اس بات پر مات کردوں۔"

میر صاحب:" میں کھیلوں گا ہی نہیں۔ آپ پہلے جاکر سن آئیں۔"

مرزا جی؛" ارے یارجاناپڑے گا، حکیم کے یہاں۔

 درد وردخاک نہیں ہے مجھے دق کرنے کا حیلہ ہے۔"
میر صاحب: "کچھ بھی ہو ان کی خاطر کرنا ہی پڑے گی۔"

مرزاجی:" اچھا۔ ایک چال اور چل لوں۔"
میر صاحب:" ہر گز نہیں۔ جب تک آپ سن نہ آئیں گے مہروں کو ہاتھ نہ لگاؤں گا۔"

متعلقہ عنوانات