افسانہ:شطرنج کے کھلاڑی، دوسری قسط

مرزا صاحب مجبور ہوکر اندر گئے تو بیگم صاحبہ نے کراہتے ہوئے کہا، "تمھیں نگوڑا شطرنج اتنا پیارا ہے کہ چاہے کوئی مربھی جائے۔ پر تم تو  اٹھنے کا نام نہیں لینے والے، شطرنج ہے کہ میری سوتن ہے۔ نوج کوئی تم جیسا نر موہیا ہو۔"

 مرزا بولے: " کیا کروں۔ میر صاحب مانتے ہی نہ تھے۔ بڑی مشکلوں سے گلا چھڑاکر آیا ہوں۔"
بیگم:" کیا جیسا خود نکھٹو ہیں ویسے ہی دوسروں کو سمجھتے ہیں۔ ان کے بھی تو بال بچے ہیں کہ سب کا صفایا کردیا۔"

مرزا:" بڑالتّی آدمی ہے۔ جب آکر سر پر سوار ہوجاتا ہے تو مجبورہو کر مجھے بھی کھیلنا ہی پڑتا ہے۔"
بیگم:" دھتکار کیوں نہیں دیتے کتّے کی طرح۔"

مرزا:" سبحان اللہ برابر کے آدمی ہیں۔ عمر میں، رتبہ میں مجھ سے دوانگل اونچے  ۔ ملاحظہ کرنا ہی پڑتا ہے۔"
بیگم:"  تومیں ہی دھتکار ے دیتی ہوں۔ ناراض ہوجائیں گے۔ کون میری روٹیاں چلاتے ہیں۔ رانی روٹھیں گی اپنا سہاگ لیں گی۔  (ماماسے ) عباسی، شطرنج اٹھالا۔ میر صاحب سے کہہ دینا۔ میاں اب نہ کھیلیں گے۔ آپ تشریف لے جائیں۔ اب پھر منہ نہ دکھائیے گا۔"

مرزا: "ہائیں ہائیں کہیں ایسا غضب نہ کرنا۔ کیاذلیل کراؤگی۔ ٹھہر عبّاسی۔ کمبخت کہاں دوڑی جاتی ہے۔"

بیگم:" جانے کیوں نہیں دیتے۔ میراجو خون پئے جو روکے۔ اچھا اسے روک لیا۔ مجھے روک لو تو جانوں۔" یہ کہہ کر بیگم صاحبہ خود جھلّائی ہوئی دیوان خانے کی طرف چلیں۔ مرزاجی کا چہرہ فق ہوگیا۔ ہوائیاں اڑنے لگیں۔ بیوی کی منتّیں کرنے لگے۔" خدا کے لیے تمھیں شہیدِ کربلا کی قسم۔ میری میّت دیکھے جو ادھر قدم رکھے ۔"لیکن بیگم صاحبہ نے ایک نہ مانی، دیوان خانے کے دروازے تک گئیں۔ یکایک نامحرم کے روبرو بے نقاب جاتے ہوئے پیر رک گئے۔

وہیں سے اندر کی طرف جھانکاحسنِ اتفاق سے کمرہ خالی تھا۔ میر صاحب نے حسبِ ضرورت دو چار مہرے تبدیل کردیے تھے ۔اس وقت اپنی صفائی جتانے کے لیے باہر چبوترہ پر چہل قدمی کررہے تھے۔ پھر کیا تھا،  بیگم صاحبہ کو منہ مانگی مراد ملی۔ اندر پہنچ کر بازی الٹ دی۔ مہرے کچھ تخت کے نیچے پھینکے کچھ باہر تب دروازہ اندر سے بند کرکے کنڈی لگادی۔ میر صاحب دروازے پر توتھے ہی مہرے باہر پھینکے جاتے دیکھے۔ پھر چوڑیوں کی جھنکار سنی تو سمجھ گئے بیگم صاحبہ بگڑ گئیں۔ چپکے سے گھر کی راہ لی۔

مرزا نے بیگم صاحبہ سے کہا" تم نے غضب کردیا۔"
بیگم:" اب موا ادھر آئے تو کھڑے کھڑے نکال دوں۔ گھر نہیں چکلا سمجھ لیا ہے۔ اتنی لو اگر خدا سے ہو تو ولی ہو جاتے۔ آپ لوگ تو شطرنج کھیلیں، میں یہاں چولھے چکی میں سر کھپاؤں، لونڈی سمجھ رکھا ہے ۔ جاتے ہو حکیم صاحب کے یہاں کہ اب بھی تامل ہے۔"

مرزاجی گھر سے نکلے تو حکیم صاحب کے یہاں کے بدلے میر صاحب کے گھر پہنچے تو معذرت آمیز لہجہ میں با دِلِ پُردرد ، سارا ماجرا کہہ سنایا۔

میر صاحب ہنس کر بولے: "اتنا تو میں اسی وقت سمجھ گیا تھا جب دردِ سر کا پیغام مامالائی تھی کہ آج آثار اچھے نہیں ہیں۔ مگر بڑی غصّہ ور معلوم ہوتی ہیں۔ اُف اتنی تمکنت آپ نے انھیں بہت سر چڑھارکھا ہے۔ یہ مناسب نہیں ۔ انھیں اس سے کیا مطلب کہ باہر کیا کرتے ہیں۔ خانہ داری کا انتطام کرنا ان کا کام ہے ۔ مردوں کی باتوں میں دخل دینے کا انھیں کیا مجال۔ میرے یہاں دیکھئے۔ کبھی کوئی چوں بھی نہیں کرتا۔"

مرزا:" خیر اب یہ بتائیے اب جماؤ کہاں ہوگا۔"
میر:" اس کا کیا غم ہے اتنا بڑا گھر پڑا ہوا ہے بس یہیں جمے گی۔"

مرزا:" لیکن بیگم صاحبہ کو کیسے مناؤں گا جب گھر پر بیٹھا رہتا تھا۔ تب تو اتنی خفگی تھی۔ گھر سے چلاآؤں تو شاید زندہ نہ چھوڑیں۔"
میر:" اجی بکنے دیجئے۔ دوچار دن میں خود بخود سیدھی ہوجائیں گی۔ ہاں آپ بھی ذرا تن جائیے۔"

میر صاحب کی بیگم صاحبہ کسی وجہ سے میر صاحب کے گھر سے غائب رہنا ہی پسند کرتی تھیں۔ اس لیے وہ ان کے مشغلہ تفریح کا مطلق گلہ نہ کرتی تھیں۔ بلکہ کبھی کبھی انھیں جانے میں دیر ہوجاتی یا کچھ الکسا تے تو  خود پلکیں بچھاتی تھیں اور انتہائی وارفتگی سے خیر مقدم کِیا کرتی تھیں ۔ ۔ ان وجوہ سے میر صاحب کو گمان ہوگیا تھا۔ کہ میری بیگم صاحبہ نہایت خلیق متحمل مزاج اور عفت کیش ہیں۔ لیکن جب ان کے دیوان خانہ میں بساط بچھنے لگی اور میر صاحب کی دائمی موجودگی سے بیگم صاحبہ کی آزادی میں ہرج پیدا ہونے لگا۔ تو انھیں بڑی تشویش دامن گیر ہوئی۔ دن کے دن دروازہ جھانکنے کو ترس جاتی تھیں۔ سوچنے لگیں کیوں کر یہ بلا سرسے ٹلے۔

ادھر نوکروں میں بھی یہ کانا پھوسی ہونے لگی۔ اب تک دن بھر پڑے پڑے خراٹے لیتے تھے۔ گھر میں کوئی آئے کوئی جائے،  ان سے مطلب تھا نہ سروکار بمشکل سے دوچار دفعہ بازار جاتا پڑتا۔ اب آٹھوں پہر کی دھونس ہوگئی۔ کبھی پان لگانے کا حکم ہوتا۔ کبھی پانی لانے کبھی برف لانے کا کبھی تمباکو بھرنے کا۔ حقّہ تو کسی دل جلے عاشق کی طرح ہر دم گرم رہتا تھا۔ سب جا کر بیگم صاحبہ سے کہتے  کہ "حضور میاں کا شطرنج تو ہمارے جی کا جنجال ہوگیا۔ دن بھر دوڑتے دوڑتے پیروں میں چھالے پڑجاتے ہیں۔ یہ بھی کوئی کھیل ہے کہ صبح کو بیٹھے تو شام کردی۔ گھڑی دو گھڑی کھیل لیاچلو چھٹی ہوئی، اورپھر حضور تو جانتی ہیں کہ کتنا منحوس کھیل ہے جسے اس کی چاٹ پڑجاتی ہے کبھی نہیں پنپتا۔ گھر پر کوئی نہ کوئی آفت ضرور آتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک کے پیچھے محلے تباہ ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ محلے والے ہر دم ہمیں لوگوں کوٹوکا کرتے ہیں۔ شرم سے گڑجانا پڑتا ہے۔ "

متعلقہ عنوانات