اب کیا بتاؤں درد کہاں تھا کہاں نہ تھا

اب کیا بتاؤں درد کہاں تھا کہاں نہ تھا
پوچھی وہ بات یار نے جس کا گماں نہ تھا


اس سے زیادہ حاصل عمر رواں نہ تھا
تیرا نشاں جو پایا تو اپنا نشاں نہ تھا


دنیا ہو یا ہجوم قیامت ہو یا کہ حشر
تیرے خراب عشق کا چرچا کہاں نہ تھا


دیکھی قفس سے جا کے چمن میں جفائے چرخ
سب کے تو آشیاں تھے مرا آشیاں نہ تھا


آتا نظر تھا دور سے نزدیک کارواں
نزدیک ہم ہوئے تو کہیں کارواں نہ تھا


آیا نظر نہ پھر بھی جہاں میں کسی کو تو
ہر چند تیرے جلوے سے خالی جہاں نہ تھا


کیسی بہار کس کا چمن فصل گل تھی کیا
دنیا نظر میں ہیچ تھی جب آشیاں نہ تھا


بے پردہ اس طرح کبھی حاصل تھا لطف دید
ہستی کا بھی حجاب مرے درمیاں نہ تھا


بجلی پہ کی نظر تو فلک پر تھی جا چکی
دیکھا جو آشیاں کی طرف آشیاں نہ تھا


ہر ذرۂ جہاں پہ تھا آباد اک جہاں
ہستی کا کوئی ذرہ بھی تو رائیگاں نہ تھا


افقرؔ مآل ہستیٔ فانی تھا بس یہی
کل تک تھا نام آج لحد کا نشاں نہ تھا