اب خواہش تلافئ مافات بھی گئی

اب خواہش تلافئ مافات بھی گئی
جی میں جو تھی اک بات سو وہ بات بھی گئی


افکار نو بہ نو نے کیا وقت رائیگاں
کن الجھنوں میں فرصت اوقات بھی گئی


رد سوال سے نہیں بے خوف عرض شوق
پھر بات کیا کریں گے اگر بات بھی گئی


احوال حال ہی کو مقدر سمجھ لیا
لو آج فکر گردش حالات بھی گئی


ہیں صبح کے حساب میں اختر شماریاں
چمکا نہ آفتاب تو کیا رات بھی گئی


ہے آج آبگینۂ احساس چور چور
جانے کہاں روانیٔ جذبات بھی گئی


وہ آج کھو گیا ہے منورؔ ہجوم میں
امید یار بہر ملاقات بھی گئی