آئے نہ حرف ضبط پہ پیر مغاں کہیں
آئے نہ حرف ضبط پہ پیر مغاں کہیں
بن جائیں خود سوال نہ انگڑائیاں کہیں
کرتی ہیں سجدہ جو رخ جاناں کو دیکھ کر
جھکتی ہیں سنگ در پہ وو پیشانیاں کہیں
اہل خرد سراغ لگاتے ہی رہ گئے
اہل جنوں کی مل نہ سکیں دھجیاں کہیں
بے ربطی سجود کا انداز دیکھ کر
بدلہ نہ لے جبیں سے ترا آستاں کہیں
بالیں پہ آ کے موت بھی اکثر پلٹ گئی
دنیا میں ہوں گے ہم سے نہ اب سخت جاں کہیں
افقرؔ ملے گی حشر میں صبر و رضا کی داد
لیکن ملے گا اب نہ مرا آستاں کہیں