جراثیمی جنگ بمقابلہ ایٹمی جنگ: کون سی جنگ زیادہ خطرناک ثابت ہوگی؟

آج دنیا کو ترقی یافتہ دور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۔۔ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بہتری اور خوشحالی 

کا عزم لیے ہوئے ہیں۔۔۔لیکن ایک اعتبار سے سائنس میں ترقی سے تباہی میں بھی ترقی ہوئی ہے۔۔۔جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔۔۔اب ہم ایٹمی جنگ سے بھی بڑے خطرے کا سامنا کرنے جارہے ہیں۔۔۔۔وہ ہے جراثیمی جنگ۔۔۔آیا جراثیم اب ہمارا مقابلہ کریں گے یا جراثیموں کو اس جنگ میں جھونکیں گے؟

جراثیمی جنگ سے کیا مراد ہے؟

بیماریوں کی وجہ بننے والے جراثیم اور وائرس کو ختم کرنے کے لئے کئی عشروں سے تحقیق جاری ہے ۔ اس تحقیق میں جراثیم اور وائرس کو کنٹرول کرنے اور ان کا علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن یہی تحقیق اگر منفی انداز میں استعمال ہو جائے تو بہت تباہی بھی لا سکتی ہے۔ یعنی جراثیم کو ختم کرنے کی بجائے ان کی افزائش میں اضافے کی کوئی منفی کوشش ، انسانیت کو بڑی تباہی سے دوچار کر سکتی ہے۔بس ایسی ہی کوئی منفی کوشش جراثیمی جنگ کی بنیاد  بن سکتی ہے۔

جراثیمی جنگ کی تاریخ

جراثیمی جنگ (Germ warfare)  کا تصور بہت پرانا ہے۔ قدیم جنگجو بھی بیماریوں والے اجسام ، دشمن کی دیواروں پر رکھ دیتے تھے یا ان کے کنویں کے پانی کو زہریلا کرنے کے لئے ان میں بیمار جانور پھینک دیتے تھے۔تاہم ماڈرن ٹیکنالوجی کے ذریعے، جراثیم کوجینیاتی طور پر پرورش دے کر لاکھوں لوگوں کو چند لمحوں میں ختم کیا جا سکتا ہے۔1972 میں امریکہ اور سابق سوویت یونین نے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کئے ، جس میں مہلک جراثیمی ہتھیاروں کی تیاری پر پابندی لگائی گئی تھی۔ تاہم بائیو انجینئرنگ کی ٹیکنالوجی اب اتنی زیادہ ترقی یافتہ ہو چکی ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ بے سود ہے۔

جراثیم پر تحقیق: مثبت یا منفی ؟

ہم دیکھتے ہیں کہ  ڈی این سے متعلقہ جب بھی کوئی نئی تحقیق شروع کی جاتی ہے تو اسے دفاعی یا جارحانہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وہ محض ریسرچ ہوتی ہے۔ جینز کی تبدیلی کو کسی بھی مقصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دوسرا یہ کہ جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے ایسے مہلک جراثیم بنائے جا سکتے ہیں  جن کی افزائش اور ہلاکت خیزی کو کسی بھی وقت بڑھایا جا سکتا ہے۔ماضی میں کبھی ایسا سوچا جا سکتا تھا کہ امریکہ اور روس ہی جراثیمی ہتھیاروں کے حامل ہو سکتے ہیں۔ آج یہ ٹیکنالوجی ہر ملک میں موجود ہو سکتی ہے اور عالمی پابندیوں کے باوجود کئی ممالک میں ایسے جراثیمی ہتھیار تیار کئے جا رہے ہیں۔

مستقبل کے جراثیمی ہتھیار

ہم نے حال ہی میں کورونا وائرس کی عالمگیر تباہی کا مشاہدہ کیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ  کورونا بھی دراصل لیبارٹری میں تیار کردہ اور ایک ترمیم شدہ (genetically modified)  وائرس تھا جسے محض ایک تجربے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ مستقبل میں ایسے کئی تجربات آزمائے جا سکتے ہیں۔

مستقبل کا ایک بہت بڑا خطرہ ہوا میں تیرتا ہوا HIV ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ زکام کے وائرس  چھینک کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ننھے قطروں کے ذریعے دوسروں تک منتقل ہو سکتے ہیں۔ جبکہ ایڈز کا وائرس اس طرح نہیں پھیلتا بلکہ وہ صرف انتقال خون یا نسل در نسل آگے منتقل ہوتا ہے کیونکہ وہ کھلی ہوا میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن خطرے کی بات یہ ہے کہ اگر زکام کے وائرس کے جینز ، ایڈز میں شامل ہو جائیں تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ کھلی ہوا میں بھی زندہ رہ سکیں گے۔ اس طرح ایڈز کا وائرس عام زکام کے وائرس کی طرح بھی پھیل سکتا ہے جس سے بہت سے انسان متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وائرس اور بیکٹیریا آپس میں جینز کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔ اس لیے اس بات کا کسی حد تک امکان بہرحال موجود ہے کہ ایڈز اور زکام کے وائرس کسی طرح آپس میں جینز کا تبادلہ کر لیں۔ اسی طرح کوئی دہشت گرد مستقبل میں ایڈز کے ہتھیار بھی بنا سکتا ہے۔

پرانی جراثیمی بیماریوں کا احیاء

قدیم دور میں انسانوں کی تباہی کا باعث بننے والی کئی بیماریاں مثلاََ طاعون اور  چیچک وغیرہ  اس وقت ختم ہو چکی ہیں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان کے وائرس اور جراثیم تحقیق کی غرض سے لیبارٹریوں میں محفوظ حالت میں موجود ہیں۔ ان جراثیموں اور وائرسز کو زیادہ طاقتور کر کے کسی بھی ملک میں پھیلایا جا سکتا ہے جس سے ایک بار پھر ان جراثیموں کی نئی شکلیں پھیل سکتی ہیں اور خطرناک تباہی کا باعث بن سکتی ہیں۔

جراثیمی جنگ کے ضمنی اثرات

جراثیمی ہتھیاروں کے استعمال میں اہم رکاوٹ بس یہی ہے کہ یہ اس ماحول کو بھی تباہ کر سکتے ہیں کہ جہاں وہ موجود ہوں۔ پہلی جنگ عظیم میں جو زہریلی گیس استعمال کی گئی تھی، اس کے اثرات خود حملہ آور وں پر بھی ہوئے تھے کیونکہ ہوا کے اثرات کو سمجھنے میں غلطی ہو گئی تھی۔ اسی طرح جراثیمی ہتھیار بھی ہوا کے بہائو میں کسی تبدیلی کی وجہ سے ارد گرد کے ماحول کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔سرد جنگ کے دوران، امریکہ اور روس، دونوں ہی جانتے تھے کہ میدان جنگ میں زہریلی گیس اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے اثرات غیر متوقع ہوسکتے ہیں اور یہ ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔  اس لیے کسی بھی ملک کی طرف سے جراثیمی ہتھیاروں کے استعمال کے بہت منفی اثرات واقع ہو سکتے ہیں۔

متعلقہ عنوانات