ضیائے صبح تبسم کی آرزو نہ کرو
ضیائے صبح تبسم کی آرزو نہ کرو
کہ تاک میں ابھی تیرہ شبی ہے بے خبرو
سما سکیں گے نہ بکھرے ہوئے حسیں جلوے
حصار چشم ابھی اور کچھ کشادہ کرو
جو پڑھ سکو تو یہ خاموش و بد نما چہرے
خود اپنے وقت کی تاریخ بھی ہیں دیدہ ورو
خوشی کی دھوپ میں جلتا ہے زندگی کا بدن
غم لطیف کے سائے کہاں ہمیں ہم سفرو
رخ حیات پہ رقصاں ہے جو خوشی کی طرح
وہ سوز عشق کی ادنیٰ کرن ہے بے بصرو
ہمیں سے صبح بنارس ہمیں سے شام اودھ
ہمیں سے دلی کی گلیاں حسیں تھیں تاج ورو
گواہی دیتے ہیں تاریخ عہد کے صفحے
یہ اور بات ہے اب تم نہ اعتراف کرو
خزاں کو رنگ بہاراں جو دے سکو ناظمؔ
کبھی بہار گریزاں کی جستجو نہ کرو