خواب راحت میں کھو گئے ہیں لوگ

خواب راحت میں کھو گئے ہیں لوگ
حسب معمول سو گئے ہیں لوگ


روتے روتے رہ محبت میں
آنسوؤں کو بھی رو گئے ہیں لوگ


میری آنکھوں میں کیا نظر آیا
دفعتاً آگ ہو گئے ہیں لوگ


کبھی تڑپے ہیں لالہ و گل پر
کبھی کانٹوں پہ سو گئے ہیں لوگ


اپنے احساس کے تنوروں میں
بیشتر راکھ ہو گئے ہیں لوگ


ایک تیر ستم کا کیا شکوہ
کتنے نشتر چبھو گئے ہیں لوگ


میری راہ حیات میں جیسے
خار ہی خار بو گئے ہیں لوگ


یہی رونا حیات کا ناظمؔ
تم سے پہلے بھی رو گئے ہیں لوگ