یاد آیا ہے جب کوئی دیپک جلے

یاد آیا ہے جب کوئی دیپک جلے
دل کے آنگن میں غم کے جھکورے چلے


راس آئی نہ شاید چمن کی ہوا
دیکھ وحشی ترے سوئے صحرا چلے


آرزو کوئی دل میں ہے اب اس طرح
جس طرح راکھ میں کوئی شعلہ پلے


زندگی کیا ہے یہ دیکھنا ہو جسے
میرے ہم راہ وہ میکدے کو چلے


مہربانی ہو یا کوئی ان کا ستم
مجھ سے ترسے ہوئے کو ہیں دونوں بھلے


ناظمؔ آخر وہ خودداریاں کیا ہوئیں
آج اس بزم میں بے بلائے چلے