میری جانب تری نظر نہ ہوئی

میری جانب تری نظر نہ ہوئی
کیوں حریف دل و جگر نہ ہوئی


فاصلوں کے دہکتے صحرا میں
قرب کی چھاؤں معتبر نہ ہوئی


کتنی راتوں کا زہر پی کر بھی
پیاس آسودۂ سحر نہ ہوئی


یوں دبے پاؤں زندگی گزری
حادثوں کو بھی کچھ خبر نہ ہوئی


شمع بردار وقت تھے پھر بھی
ہم سے تزئین بام و در نہ ہوئی


تیری پرواز فکر اے ناظمؔ
کبھی محتاج بال و پر نہ ہوئی