جھک گیا پائے جاناں پہ سر ہی تو ہے

جھک گیا پائے جاناں پہ سر ہی تو ہے
کھو گئی بجلیوں میں نظر ہی تو ہے


یہ جہاں پتھروں کا نگر ہی تو ہے
سانس لینا یہاں اک ہنر ہی تو ہے


چین سے رہنے دیتا نہیں ایک جا
یہ ہمارا جنون سفر ہی تو ہے


راہزن ہی سہی راہ منزل میں وہ
سوچتا ہوں مرا ہم سفر ہی تو ہے


تم تو دامن بچاتے ہو اب اس طرح
جیسے آنسو نہیں یہ شرر ہی تو ہے


چلتے رہئے جہاں تک ملے روشنی
زندگی حسن کی رہ گزر ہی تو ہے


تیرگی ہی کو ناظمؔ لگاؤ گلے
یہ بھی تعبیر خواب سحر ہی تو ہے