زندگی میں اور کوئی تو مری حسرت نہیں

زندگی میں اور کوئی تو مری حسرت نہیں
وقت تیرا چاہتی ہوں بس تری فرصت نہیں


پاک کیا رہنے دیا ہے اس جہاں نے اب بتا
جسم سے مطلب اسے ہے روح سے رغبت نہیں


راہ میں پتھر ہزاروں وہ کریں تو کیا کریں
روکنا ان کا کرم رکنا مری فطرت نہیں


اک اذیت میں سلگتی جا رہی ہوں در بہ در
اور مجھے اس آگ کی تکلیف سے راحت نہیں


بات سنتے بھی نہیں تم اف سمجھتے بھی نہیں
مجھ کو پانے کی تمہاری ضد ہے ی الفت نہیں


جو کریں نفرت بھری باتیں انا لبریز ہوں
کر معاف اے زندگی ایسی مری صحبت نہیں


سوئی کا ی کام تلواروں سے کیوں لیتے ہو تم
زخم سینا زخم بھرنا ان کی یہ قدرت نہیں