ایسا کب تک چلے گا

کچھ کہنا ہے اور کچھ نہ کہے چلے جانا یہ کب تک چلے گا
تمہارا ہم پر یوں مر مر کے جیے جانا ایسا کب تک چلے گا


یہ جو تم نئے بہانوں سے ہمیں دیکھنے آتے ہو سب سمجھ آتا ہے
ہم تمہیں دیکھ لیں اور تمہارا بے ساختہ منہ پھیر جانا ایسا کب تک چلے گا


لو آ گئے تمہارے دوست پھر قاصد بن
عاشق کا حال برا ہے ان کا یہ مجھے بتائے جانا ایسا کب تک چلے گا


میں نے تو کبھی نہیں روکا تمہیں میرا ہاتھ تھامنے سے
تمہارا ہر روز اتنے قریب سے گزر جانا
ایسا کب تک چلے گا


نہیں جانتے تمہاری کیا ہے حسرت
تو یہ جان بوجھ کر شاعری میں اپنی سب کہے جانا
ایسا کب تک چلے گا


تم سے نہیں ہوتا تو ایک قدم میں ہی آگے بڑھاتی ہوں
گیتؔ اب تیرا یہ ایک قدم آگے بڑھا دو پیچھے ہو جانا
ایسا کب تک چلے گا