زندگی کی راحتوں سے ماورا ہو جائے گا
زندگی کی راحتوں سے ماورا ہو جائے گا
اک لباس بے خودی جس کو عطا ہو جائے گا
اہل دنیا ایک دن وہ وقت آئے گا ضرور
یہ تمنا کا جہاں یک دم فنا ہو جائے گا
اک تعلق ہے بقائے ذات کا ضامن یہاں
پھول ٹہنی سے گرے گا تو فنا ہو جائے گا
ٹوٹ جائے گا یہ چرخہ جسم کا چلتے ہوئے
اور قیدی قید سے آخر رہا ہو جائے گا
شب کی تاریکی سے جیسے پھوٹتی ہے صبح نو
درد جب حد سے بڑھے گا تو دوا ہو جائے گا
گر یہی عالم رہا اقدار کی تسخیر کا
ہر برا اچھا تو ہر اچھا برا ہو جائے گا
تاجؔ کہہ گزریں گے اس سے جو ہمارے دل میں ہے
بس خفا ہو جائے گا نا اور کیا ہو جائے گا