ایک ہی لفظ میں دفتر لکھنا
ایک ہی لفظ میں دفتر لکھنا
خط اسے سوچ سمجھ کر لکھنا
جب چلی تیز ہوا کی تلوار
کتنے پنچھی ہوئے بے پر لکھنا
چاندنی کس کا مقدر ٹھہری
کس کا تاریک رہا گھر لکھنا
جھیل سے ابھری تھی جب قوس قزح
وہ سلگتا ہوا منظر لکھنا
نام بھی اس کا جو لکھنا پڑ جائے
روش عام سے ہٹ کر لکھنا
خوف کرنا نہ ہوا کا ہرگز
ریگ صحرا پہ سمندر لکھنا
ہے عجب کرب قلم میں اے تاجؔ
جو نہ لکھنا ہو وہ اکثر لکھنا