کرن سی ایک اندھیرے میں جھلملائی ہے

کرن سی ایک اندھیرے میں جھلملائی ہے
یہ کس کی چشم سحر خیز مسکرائی ہے


ٹھہر نسیم ذرا ہم بھی ساتھ چلتے ہیں
گل و بہار سے اپنی بھی آشنائی ہے


جنوں کی راہ میں رکتے نہیں ہیں دیوانے
فرار ایک دلیل شکستہ پائی ہے


یہ جذب دل کا اثر ہے کہ اک تماشہ ہے
ادھر حضور کا بندہ ادھر خدائی ہے


گلہ کسی سے نہ کر تیرے کوچہ تک ساقی
ہمیں بھی گردش دوراں ہی کھینچ لائی ہے


بجھے دیوں کی زبانیں دھواں اگلتی ہیں
نئی سحر نے صف تیرگی بچھائی ہے


وہی گلوں پہ اداسی وہی فضا میں سکوت
سنا ہے تاجؔ چمن میں بہار آئی ہے