غم حیات کی یہ دل کشی غنیمت ہے

غم حیات کی یہ دل کشی غنیمت ہے
میرے قریب نہ آئی خوشی غنیمت ہے


وہ زندگی جو تیری یاد کی اسیر رہی
کسی طرح سے گزر ہی گئی غنیمت ہے


حیات معرکۂ غم سے کم نہیں اے دوست
یہ چند لمحوں کی فرصت بڑی غنیمت ہے


خدا کا شکر ہے توہین التجا نہ ہوئی
کسی نے بات مری مان لی غنیمت ہے


تعلقات بہر حال برقرار تو ہیں
جفا شعار کی یہ دشمنی غنیمت ہے


دھڑکتے دل کو کہاں تک سنبھال سکتے تھے
ہجوم غم میں سحر ہو گئی غنیمت ہے


کوئی انیس غم دل نہیں رہا اے تاجؔ
میری رفیق مری شاعری غنیمت ہے