زندگی کیسے کسی مرحلے پر ٹھہری رہے
زندگی کیسے کسی مرحلے پر ٹھہری رہے یعنی چلتی بھی رہے سانس مگر ٹھہری رہے عشق کی رسم نہ بدلے کسی عاشق کے لیے راہ رو چلتے رہیں راہ گزر ٹھہری رہے وقت خود ہی ہمیں سکھلائے گا آداب سخن لب ناشاد پہ خاموشی اگر ٹھہری رہے باغ امکاں کے مناظر کا بلاوا ہے ہمیں کب تک الفت کے دریچے پہ نظر ٹھہری ...