زیست کا کھیل رچانے کی ضرورت کیا ہے
زیست کا کھیل رچانے کی ضرورت کیا ہے
روتے لمحات سجانے کی ضرورت کیا ہے
یاد جب مجھ کو ترے سارے کرم ہیں جاناں
پھر یہ احسان جتانے کی ضرورت کیا ہے
عشق سے عشق ضروری ہے مگر جان عزیز
سب کو یہ بات بتانے کی ضرورت کیا ہے
ایک موہوم سہارا ہے گزارے شب کے
بار اس کا بھی اٹھانے کی ضرورت کیا ہے
میں گئے وقت کو آواز نہیں دے سکتا
یوں بھی آواز لگانے کی ضرورت کیا ہے
پھول جوڑے میں سجانے کے لیے ہوتے ہیں
پھول پانی میں بہانے کی ضرورت کیا ہے
اس کا چہرہ نظر آ جائے کہ عادلؔ وہ شخص
جانتا بھی ہے زمانے کی ضرورت کیا ہے