ضد پہ ہے دنیا تو ضد پہ تیرا دیوانہ بھی ہے
ضد پہ ہے دنیا تو ضد پہ تیرا دیوانہ بھی ہے
پاؤں میں زنجیر بھی تیری طرف جانا بھی ہے
ٹوٹ کر دل نے ہمارے کل تجھے چاہا بھی تھا
ٹوٹ کر دل نے ہمارے آج یہ جانا بھی ہے
میر صاحب دیکھیے آ کر ہمارے دور میں
اب غزل ہے آئینہ اور آئینہ خانہ بھی ہے
دیکھ لے جو بھی انہیں وہ چھوڑ دے پینی شراب
یہ تری آنکھیں نہیں ہیں ایک مے خانہ بھی ہے
دیکھ لے کیسے منایا ہجر تیرا جان جاں
درد دل آنکھوں میں آنسو اور ویرانہ بھی ہے