گھڑیاں عجیب ہوتی ہیں کچھ انتظار کی

گھڑیاں عجیب ہوتی ہیں کچھ انتظار کی
حالت نہ پوچھیے گا دل بے قرار کی


آنکھیں ہر ایک شخص کی رونے لگیں لہو
موسم نے رخصتی جو سنائی بہار کی


پتھر بھی مجھ کو راہ کے پہچاننے لگے
کچھ ایسے خاک چھانی ہے اس کے دیار کی


دامن ترا جب اس کو میسر نہ آ سکا
عاشق نے تیرے راہ جنوں اختیار کی


ہم مر گئے تھے اس سے بچھڑتے ہی اے بلالؔ
اب جی رہے ہیں لے کے یہ سانسیں ادھار کی