قہر برسا آسماں سے تب پشیمانی ہوئی

قہر برسا آسماں سے تب پشیمانی ہوئی
بھول بیٹھے ہم خدا کو ہم سے نادانی ہوئی


کیا حسیں رونق یہاں تھی کس قدر آباد تھا
آج اپنے شہر کو دیکھا تو حیرانی ہوئی


جی رہی ہیں خوف کے سائے میں وہ ان دنوں
صورتیں دنیا میں تھیں جو جانی پہچانی ہوئی


ہو گئے ہیں مندر و مسجد کے دروازے بھی بند
ساری دنیا پر مسلط کیسی ویرانی ہوئی


جی حضوری کر نہ پائے حکم پر اس کے بلالؔ
بادشاہ وقت کی ہم سے نہ دربانی ہوئی