منزلوں کی چاہ لے کر راستوں میں قید ہیں
منزلوں کی چاہ لے کر راستوں میں قید ہیں
جتنے تھے آزاد پنچھی گھونسلوں میں قید ہیں
جو یہ کہتے تھے ہمارے پاؤں میں تل ہے جناب
آج ایسے لوگ بھی اپنے گھروں میں قید ہیں
تجھ سے پہلے تیرے جیسی شان و شوکت کے یہاں
جانے کتنے بادشہ ان مقبروں میں قید ہیں
جو کئے محسوس میں نے اس کو چھو کر پہلی بار
آج بھی وہ ذائقے ان انگلیوں میں قید ہیں
خود اٹھانا پڑ رہا ہے بوجھ اپنا آج کل
حاشیہ بردار سارے حاشیوں میں قید ہیں