کچھ نزاکت نہ ہو شوخی نہ ہو انداز نہ ہو
کچھ نزاکت نہ ہو شوخی نہ ہو انداز نہ ہو
حسن وہ حسن کیا جس حسن میں کچھ ناز نہ ہو
ظلم کے ساتھ ہے یہ شرط بھی اس ظالم کی
آہ نکلے بھی اگر کوئی تو آواز نہ ہو
بات جو ہوتی ہے ہونٹوں کو بتا دیتا ہے
دل کے جیسا بھی کسی کا کوئی ہم راز نہ ہو
میرے صیاد نے یہ سوچ کے پر کاٹ دئے
اب قفس میں بھی کہیں حسرت پرواز نہ ہو
حسن تو عشق کی شدت سے نکھرتا ہے بلالؔ
تاج بیکار ہے جب تک کوئی ممتاز نہ ہو