ذہن ہر سو نگاہ کرتا ہے
ذہن ہر سو نگاہ کرتا ہے
دل فقط ان کی چاہ کرتا ہے
حق وہ رکھتا ہے روٹھنے کا بھی
پیار جو بے پناہ کرتا ہے
جو کن انکھیوں سے دیکھتا ہے اسے
باسلیقہ گناہ کرتا ہے
فقر بھی اس کا ہے شہنشاہی
دل کو جو خانقاہ کرتا ہے
دل ثبوت بقائے ہستی میں
دھڑکنوں کو گواہ کرتا ہے
قبل منزل چراغ راہ گزر
خوف کو سد راہ کرتا ہے
شوقؔ تخلیق شعر کیا جانے
صرف کاغذ سیاہ کرتا ہے