لٹ گئے اہل غم جل گئے آشیاں برق کا تلملانا غضب ہو گیا
لٹ گئے اہل غم جل گئے آشیاں برق کا تلملانا غضب ہو گیا
جن کے آنے کی مانگی تھی برسوں دعا ان بہاروں کا آنا غضب ہو گیا
فکر ہستی گئی فکر دنیا گئی آسماں کے گلے غم کی بپتا گئی
ہو گئے گل سبھی جگمگاتے دیے شمع الفت جلانا غضب ہو گیا
آنکھ پر آب مغموم ہے زندگی دل ہے بیتاب آنکھوں سے نیند اڑ گئی
ان کی محفل میں جانا تو مشکل نہ تھا ان کی محفل سے آنا غضب ہو گیا
سامنے سے مرے جب بھی جاتے ہیں وہ رخ بچاتے ہیں نظریں چراتے ہیں وہ
پیار ان سے جتانا ستم ہو گیا راز دل کا بتانا غضب ہو گیا
چاند شرما گیا پھول قرباں ہوئے حسن کون و مکاں آ گیا وجد میں
شوقؔ کو دیکھ کر بزم میں آپ کا زیر لب مسکرانا غضب ہو گیا