اپنوں ہی پہ ہوتی ہے ہر مشق جفا پہلے
اپنوں ہی پہ ہوتی ہے ہر مشق جفا پہلے
کی چاک بہاروں نے پھولوں کی قبا پہلے
اس کے لئے اٹھے تھے گو دست دعا پہلے
بیمار کی قسمت سے آ پہنچی قضا پہلے
اب ان کی جفاؤں کا کیوں دہر سے شکوہ ہے
ڈالی تھی ہمیں نے تو بنیاد وفا پہلے
محسوس یہ ہوتا ہے جیسے کبھی دیکھا ہو
اے دوست مگر تجھ کو دیکھا تو نہ تھا پہلے
بیمار محبت کے انداز بتاتے ہیں
تدبیر و دوا آخر تقدیر و دعا پہلے
کیا فکر ہے دیوانے مل جائیں گے پھر وہ بھی
تو چاک گریباں کو دامن سے ملا پہلے
شوقؔ اس کے تجسس میں یہ حال بھی گزرا ہے
پوچھا ہے زمانے سے اپنا ہی پتا پہلے