حق نوا جرأت اظہار تک آ پہنچے ہیں

حق نوا جرأت اظہار تک آ پہنچے ہیں
حوصلے اب رسن و دار تک آ پہنچے ہیں


شیخ صاحب بھی ہیں ساقی ترے میخانے میں
تیری جنت میں گنہ گار تک آ پہنچے ہیں


درد دل کا مرے افسانہ ہیں وہ دو آنسو
جو ترے پھول سے رخسار تک آ پہنچے ہیں


ان بیانوں سے مرا کوئی تعلق ہی نہیں
جو مرے نام سے اخبار تک آ پہنچے ہیں


امن عالم کی دعا کے لئے جو اٹھتے تھے
آج وہ ہاتھ بھی تلوار تک آ پہنچے ہیں


حل نکل آیا ہے گمراہئ دل کا جب سے
غم زمانے کے غم یار تک آ پہنچے ہیں


دیکھیے ان کو چمن میں نظر آئے کیا کیا
شوقؔ جو نرگس بیمار تک آ پہنچے ہیں