ذہن اشکال کو زنجیر نہیں کر پایا

ذہن اشکال کو زنجیر نہیں کر پایا
میں مکمل کوئی تصویر نہیں کر پایا


میری مٹی میں گندھے جوہر تخریب کی خیر
وقت اب تک مجھے تعمیر نہیں کر پایا


جانتا ہوں کہ محبت ہے جہانگیر مگر
میں محبت کو جہانگیر نہیں کر پایا


وقت کو میں نے گزارا ہے ازل سے اب تک
پھر بھی میں وقت کی تفسیر نہیں کر پاتا


زندگی ایک عجب خواب ہے آکاشؔ جسے
کوئی شرمندۂ تعبیر نہیں کر پایا