قفس کو توڑ کے تازہ ہوا میں سانس لیا
قفس کو توڑ کے تازہ ہوا میں سانس لیا وجود چھوڑ کے تازہ ہوا میں سانس لیا دھوئیں کے شہر میں بارش کا شکر واجب تھا سو ہاتھ جوڑ کے تازہ ہوا میں سانس لیا فضا کی دوسری جانب تھا باغ پھولوں کا مہار موڑ کے تازہ ہوا میں سانس لیا تھے اک غبارہ نما آسماں کی قید میں ہم غبارہ پھوڑ کے تازہ ہوا ...