ذرہ ذرہ ہے اسے مہر منور نہ کہو

ذرہ ذرہ ہے اسے مہر منور نہ کہو
قطرہ ہر حال میں قطرہ ہے سمندر نہ کہو


بت طناز کو اخلاص کا پیکر نہ کہو
دشمن مہر و وفا کو فن آذر نہ کہو


کہیں پھوٹی ہے کبھی ان سے وفا کی خوشبو
لب معشوق کو اوراق گل تر نہ کہو


رنگ اور نسل کی تفریق مٹانے کے لئے
مصلحت ہے اسے بہتر اسے کمتر نہ کہو


غم کی جب آنچ لگے گی تو پگھل جائے گا
دل تو اک شیشہ ہے اس شیشے کو پتھر نہ کہو


ساتھ تقدیر کے تدبیر ضروری ہے حبابؔ
بگڑے حالات کو تم اپنا مقدر نہ کہو