جذبۂ شوق نے یوں داد وفا پائی ہے
جذبۂ شوق نے یوں داد وفا پائی ہے
کھنچ کے منزل مرے قدموں میں چلی آئی ہے
آج تک مٹ نہ سکی ماتھے سے سجدوں کی خلش
ایک مدت سے ترے در پہ جبیں سائی ہے
آئنہ توڑ کے ہاتھوں میں لئے بیٹھے ہیں
عبرت انگیز یہ انجام خود آرائی ہے
آپ آئیں نہ سہی مجھ کو بلائیں نہ سہی
آپ کی یاد رفیق شب تنہائی ہے
مہرباں وہ ہیں تو اغیار پریشاں کیوں ہیں
میری اور ان کی تو برسوں کی شناسائی ہے
کوئی نغمہ کوئی سنگیت کوئی گیت نہیں
زندگی درد میں ڈوبی ہوئی شہنائی ہے
جن کو انکار تھا اب وہ بھی تو کہتے ہیں حبابؔ
تیرے اشعار میں گہرائی ہے گیرائی ہے