مری خاطر کوئی نامہ کوئی پیغام تو ہو

مری خاطر کوئی نامہ کوئی پیغام تو ہو
دل مضطر کو کسی طور سے آرام تو ہو


مجھ سے آوارہ کو مل جائے مگر جائے اماں
آرزو ہے ترے کوچے میں کبھی شام تو ہو


موج خوں سر سے گزر جائے تو کچھ بات بنے
آج زنداں میں بھی تزئین در و بام تو ہو


تپتے صحرا میں بھی سایہ کہیں مل جائے گا
پہلے اے دوست تجھے جرأت یک گام تو ہو


بے گناہی کا مرے قتل پہ چرچا ہوگا
کوئی بہتان تراشو کوئی الزام تو ہو


گر ترا لطف نہیں تیرا تغافل ہی سہی
آخرش میری وفا کا کوئی انعام تو ہو


انگلیاں اٹھتی ہیں جس سمت بھی جاتے ہو حبابؔ
نہ سہی کچھ مگر اک شاعر بدنام تو ہو