کیا ہوا رنگینیٔ صبح و مسا باقی نہیں

کیا ہوا رنگینیٔ صبح و مسا باقی نہیں
اپنے ہی گھر میں وہ پہلی سی فضا باقی نہیں


آرزؤں کا کوئی بھی سلسلہ باقی نہیں
مسئلہ یہ ہے کہ کوئی مسئلہ باقی نہیں


آ گیا ہے اب سوا نیزے پہ دیکھو آفتاب
اپنا سایہ بھی زمیں پر زیر پا باقی نہیں


منزلیں آواز دیتی ہیں کہ ہم ہیں منتظر
قافلے والوں میں لیکن حوصلے باقی نہیں


بے محابا اس کے آنے کا نتیجہ یہ ہوا
آئنہ خانے میں کوئی آئنہ باقی نہیں


کتنی مشاقی سے اس نے صاف دو ٹکڑے کئے
جسم میں اب ایک بھی تسمہ لگا باقی نہیں


ہم تو چھوڑ آئے تھے گہرے نقش راہوں میں حبابؔ
وائے حسرت ایک بھی اب نقش پا باقی نہیں