جلوہ گر آج ہے وہ مہر منور کی طرح
جلوہ گر آج ہے وہ مہر منور کی طرح
بخت اپنا بھی چمکتا ہے سکندر کی طرح
اس کی رفتار ہے بس موجۂ کوثر کی طرح
گفتگو میں ہے کھنک شیشہ و ساغر کی طرح
کس کو یارائے سخن ہے اسے ہم بھی دیکھیں
وہ مخاطب ہے مگر داور محشر کی طرح
کیا خبر لوگ کسے اپنا خدا کہہ دیں گے
لاکھ بت ہم نے تراشے تو ہیں آزر کی طرح
کس پہ اس دور پر آشوب میں تکیہ کیجے
راہزن بھی تو نظر آتے ہیں رہبر کی طرح
منزل فقر و غنا کیا ہے یہ ہم سے پوچھو
زندگی ہم نے گزاری ہے قلندر کی طرح
کتنے طوفان ہیں پنہاں کوئی دیکھے تو حبابؔ
موجزن ہے دل شاعر بھی سمندر کی طرح