ذرا ذرا سی آن میں وہ جان جاں بدل گیا
ذرا ذرا سی آن میں وہ جان جاں بدل گیا
کبھی تو بات کاٹ دی کبھی زباں بدل گیا
ہمیں تو یہ گلہ نہیں کہ جان جاں بدل گیا
گلہ یہ ہے کہ وہ بحق دیگراں بدل گیا
بہار تو بہار تھی خزاں بھی اب بہار ہے
نظام گلستاں مزاج باغباں بدل گیا
بجا کہ ہے تغیر چمن سے زینت چمن
مگر یہ کیا کہ گلستاں کا گلستاں بدل گیا
فغان و ضبط آہ میں یہی ہے فرق اور کیا
کہ آگ تو لگی رہی مگر دھواں بدل گیا
رہ حیات سے ہزاروں راستے نکل گئے
کسے یہ اب خیال ہے کہ کوئی کہاں بدل گیا
تری نگاہ تھی تو اک جہان سازگار تھا
تری نگاہ پھر گئی تو اک جہاں بدل گیا
وہی فریب دشمناں ہے اس کا غم نہیں ہمیں
ہمیں تو غم یہ ہے خلوص دوستاں بدل گیا
جنوں نے سونپ دی خرد کے ہاتھ رسم رہبری
لو اہل کارواں امیر کارواں بدل گیا
وجود سے عدم کو یوں چلا گیا ہے اک غریب
کرایہ دار جس طرح کوئی مکاں بدل گیا
حرم سے جو خلوص تھا ہے دیر سے وہی خلوص
جبیں وہی ہے کیا ہوا جو آستاں بدل گیا