ذرا ٹھوکر لگے تو خودکشی کی بات کرتا ہے
ذرا ٹھوکر لگے تو خودکشی کی بات کرتا ہے
بشر اس دور کا کچھ الجھنوں سے کتنا ڈرتا ہے
کہو اس سے یہاں پھولوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا
کہ منزل اس کو ملتی ہے جو کانٹوں سے گزرتا ہے
کسی دن قرض اس نے بھی لیا ہوگا زمانہ سے
تبھی بن کر رنی یہ وقت سب کے زخم بھرتا ہے
کبھی بھی گود لیتی ہی نہیں پھر یہ کوئی سپنا
کسی بھی آنکھ میں اس کا کوئی جب خواب مرتا ہے
کڑھن ہوتی ہے کچھ یوں نوچ لوں میں جسم تک اپنا
کسی اک شخص کا چھونا کبھی اتنا اکھرتا ہے
یہ لالی اور بندی ریتؔ کیوں بھاتے نہیں تم کو
اسی شرنگار سے تو جسم عورت کا سنورتا ہے