کسی کا زخم دے کر مسکرانا یاد آتا ہے
کسی کا زخم دے کر مسکرانا یاد آتا ہے
کسی کا اس پہ پھر مرہم لگانا یاد آتا ہے
زمیں پہ بکھرے پھولوں کو کبھی جب میں اٹھاتی ہوں
کسی کا توڑ کر دل چھوڑ جانا یاد آتا ہے
الجھ کر کام میں جب بھول جاتی ہوں میں خود کو تب
وہ ماں کا دودھ اور روٹی کھلانا یاد آتا ہے
مجھے یاد آتی ہے اکثر کڑی وہ دھوپ بچپن کی
وہ ننھے ہاتھوں سے کچرا اٹھانا یاد آتا ہے
بھری بارش میں چھپر سے ٹپکتا خوب جب پانی
وہ آنچل میں ہمیں ماں کا چھپانا یاد آتا ہے
سڑک پر جب بھی دیکھوں میں کوئی سوتا ہوا بچہ
مجھے اپنا اناتھالیہ میں جانا یاد آتا ہے
میری تنہائیاں جب جب پریشاں مجھ کو کرتی ہیں
مجھے تب تب میرا وہ دل لگانا یاد آتا ہے