بد گمانی کا یہ عالم ہر جگہ پلنے لگا ہے

بد گمانی کا یہ عالم ہر جگہ پلنے لگا ہے
بھیڑ کا تنہا سفر اب روح کو کھلنے لگا ہے


اب فلک کی روشنی آتی نہیں ہے گھر میں میرے
نور میری زیست کا اب دن بہ دن ڈھلنے لگا ہے


یار ہے خنجر بھی ہے تو فیصلہ بھی ہو ہی جائے
وقت آیا ہے اگر تو وقت کیوں ٹلنے لگا ہے


یاد میں اپنے پرندو کی ہوا ہے پیڑ بوڑھا
آندھیوں سے جو لڑا دیمک سے وہ گلنے لگا ہے


بے سبب یوں رات کو سب چاند سے باتیں نہ کرتے
درد ہر اک شخص میں اب فصل سا پھلنے لگا ہے


آسماں کے منچ پر یہ چاند سورج کی کہانی
ایک اگنے جو لگا تو دوسرا ڈھلنے لگا ہے