ہو اگر الجھن یا کوئی غم تو مجھ سے بات کر
ہو اگر الجھن یا کوئی غم تو مجھ سے بات کر
یوں نہ کر آنکھوں کو اپنی نم تو مجھ سے بات کر
کون سی شے آسماں میں ہے نہاں مجھ کو بتا
کیوں بھلا دیکھے ادھر ہر دم تو مجھ سے بات کر
گفتگو سے ہی یہاں پر حل کوئی ہو پائے گا
خامشی کر دے گی یہ بے دم تو مجھ سے بات کر
کیا دیا ہے آپ نے جز مجھ کو اک تصویر کے
ہاں اسی سے کہتی ہوں ہمدم تو مجھ سے بات کر
چار دن کی زیست میں بس چار پل خوشیوں کے ہیں
کس لئے پھر رات دن ماتم تو مجھ سے بات کر
ریتؔ کیا تنہا سفر سچ میں تجھے کھلنے لگا
کیا نہیں کہتا کوئی جانم تو مجھ سے بات کر